واشنگٹن (نیوز ڈیسک) نے کہا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنے اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ اصلاحات پاکستان کو قرض اور بیرونی فنانسنگ کے گھن چکر سے نکلنے میں مدد کریں گی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری الزبتھ ہورسٹ، جو امریکی محکمہ خارجہ میں بیورو آف ساو¿تھ اینڈ سینٹرل افیئرز کی سربراہ ہیں، نے مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اصلاحات نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ الزبتھ ہورسٹ نے کہا کہ یہ مشکل معاشی صورتحال ہے، پاکستان میں، امریکا میں اور پوری دنیا میں یہی صورتحال ہے، پاکستان کو معاشی تباہی سے بچنے میں امریکا کس طرح مددگار ثابت ہوسکتا ہے؟ ہم پاکستان کی معاشی اصلاحات میں پیشرفت میں مدد کے لیے ہر روز کام کر رہے ہیں جس سے یہ مقابلے کے لیے مزید اہل اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہوگا۔امریکی عہدیدار نے معاشی بدحالی کے دباوکو کم کرنے میں مدد کے لیے حالیہ امریکی کوششوں اور گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب کے متاثرین کے لیے امداد پر روشنی ڈالی، اس میں ہنگامی پناہ گاہ، سیلاب کی تباہ کاریوں سے ریلیف اور خوراک کے لیے ساڑھے 21 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی رقم شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم پاکستان کو تباہ کاریوں سے بحالی کے بعد قدرتی ا?فات کے مقابلے میں لچک پیدا کرنے کی جانب بڑھنے میں مدد کرنے کے لیے مستقبل کی تعمیر کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاک-امریکا گرین الائنس کے ذریعے ہم توانائی، پانی اور زراعت کے شعبے میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری کر رہے ہیں جس سے موسمیاتی لچک کو مضبوطی ملے گی، توانائی کے شعبے میں جدت ا?ئے گی اور جامع اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے الزبتھ ہورسٹ نے کہا کہ ہم پاکستان کو امریکا کی تجارت اور سرمایہ کاری کی مسابقتی مارکیٹ میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جب امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرتی ہیں تو دونوں ممالک کے لیے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری 21ویں صدی کی بھاری معاوضے والی ملازمتیں پیدا کرتی ہے، ورکرز کے لیے تربیت اور ہنر میں بہتری فراہم کرتی ہے اور انٹرنیشنل لیبر اسٹینڈرڈز کی پاسداری یقینی بنانے میں مدد کرتی ہے۔امریکی عہدیدار نے دیگر ممالک کی سرمایہ کاری کا ذکر کیے بغیر (مثلاً چین، جس کے بارے میں امریکا کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان کے قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا باعث ہے) کہا کہ امریکی کمپنیاں قرض نہیں سرمایہ کاری لاتی ہیں اور وہ کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے اقدامات کے ذریعے مقامی کمیونٹیز کو فائدہ دیتی ہیں، اسی لیے یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان اقتصادی اصلاحات پر پیش رفت کرے تاکہ کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کے حوالے سے درکار اعتماد اور یقین پیدا کیا جاسکے۔سینئر امریکی عہدیدار کو توجہ دلائی گئی کہ پاکستان میں صارفین اپنے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر رہے ہیں کیونکہ بجلی کے بل عوام کی استطاعت سے باہر ہوچکے ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے حکومت بجلی کے بلوں کا بوجھ کم نہیں کر سکتی، جواب میں انہوں نے کہا کہ عالمی معاشی حالات کے باعث اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، بہت سے ممالک مہنگائی سے دوچار ہیں، اس وجہ سے لوگوں کی زندگیوں اور معاش پر بہت نمایاں اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تاہم الزبتھ ہورسٹ نے آئی ایم ایف پروگراموں کا دفاع کیا، انہوں نے کہا کہ لوگ اکثر نظر انداز کردیتے ہیں کہ آئی ایم ایف، پاکستان کو قرضوں اور بیرونی فنانسنگ کے گھن چکر سے آزاد ہونے کے لیے ضروری اصلاحات کرنے میں مدد کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ایک طویل عرصے سے ضرورت ہے اور درحقیقت ایسے پروگرام موجود ہیں جو غریب ترین لوگوں پر بوجھ کو کم کرنے میں مدد کریں۔انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ کوئی بھی زیادہ بل ادا کرنا پسند نہیں کرتا، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے بغیر پاکستان کی پوری معیشت مشکلات کا شکار رہے گی، اس حوالے سے ہم اور پاکستان کے دیگر دوست ممالک پاکستان کی کوششوں کی حمایت کے لیے موجود ہیں۔امریکی عہدیدار نے کہا کہ تاہم اس طرح کی اصلاحات کے لیے مضبوط قیادت اور صبر کی ضرورت ہوگی لیکن ٹیکس اور سرمایہ کاری جیسے مسائل پر یہ تبدیلیاں کیے بغیر پاکستان اپنے پاو¿ں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام ان اصلاحات کا صرف ایک حصہ ہے جو پاکستان کو کرنے کی ضرورت ہے، ایک خوشحال اور معاشی طور پر مستحکم پاکستان، پاکستانی عوام اور ہمارے بھی مفاد میں ہے جس میں جامع ترقی اور آنے والی نسلوں کے لیے مواقع موجود ہوں۔یا درہے رواں ماہ کے آخر میں نیویارک میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی امریکی اور آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کے دوران اقتصادی بحران پر بات چیت متوقع ہے، ان کے وفد میں وزیر خزانہ بھی شامل ہوں گے۔