لان ژو (شِںہوا) چین کے شمال مغربی صوبہ گانسو کی جامعہ لان ژو میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی پاکستانی طالبہ آصفہ بتول اس امید کے ساتھ خشک زمین پر زرعت بارے اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں کہ وہ پاکستان میں اناج کی پیداوار بڑھانے میں اپنا علم اور ٹیکنالوجی استعمال کر سکیں۔
2012 میں پہلی مرتبہ ماسٹر ڈگری کے لیے جامعہ لان ژو آنے کے بعد سے انہوں نے جامعہ میں تقریباً 11 برس گزارے ہیں جہاں انہوں نے 2018 میں ماحولیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پی ایچ ڈی مکمل کرنے بعد پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق شروع کی۔
چین میں تعلیم کے حصول کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مشیر شیانگ یوکائی کا شکریہ ادا کیا ،وہ جامعہ لان ژو کے کالج آف ایکولوجی میں پروفیسر ہیں، انہوں نے ایک مرتبہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد انڈرگریجویٹ طلبا کو لیکچر دیا جس میں انہوں نے چینی خشک زمین زراعت اور پانی کی بچت بارے ٹیکنالوجی متعارف کرائی تھی۔
وہ چینی زرعی ٹیکنالوجی سے متاثر تھیں اور وہ پرامید ہیں کہ وہ پاکستان میں موجودہ زرعی صورتحال میں تبدیلی کے لئے ان سے سیکھیں گی۔
انہوں نے چینی حکومت کے اسکالرشپ کے تحت جامعہ لان ژو میں گریجویشن کے لئے درخواست دی اور 2012 میں پروفیسر شیانگ کے ساتھ گریجویٹ کی تعلیم شروع کی۔
وہ پودوں کی نشوونما اور پیداواری صلاحیت بہتر بنانے کے لئے زراعت اور بائیو ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے تحقیقی کام میں مصروف ہیں۔
آصفہ نے بتایا کہ جامعہ لان ژو زراعت میں مطالعہ کے لئے چین میں ایک معروف ادارہ ہے۔ اس لئے انہوں نے اس جامعہ کا انتخاب کیا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ خشک زمینی زرعی کی چینی ٹیکنالوجی خشک اور نیم خشک علاقوں میں فصلوں کی پیداوار بہتر بنانے میں ایک ممکنہ اختراعی نقطہ نظر پیش کرتی ہے جو کہ زرعی پیداواری نظام کے فروغ کا ایک اہم حل بھی ہے۔
انہیں امید ہے کہ پاکستان میں چینی ٹیکنالوجی پر عمل کیا جائے گا کیونکہ پاکستان میں خشک علاقوں پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے جہاں فصلوں کا انحصار صرف بارش پر ہوتا ہے۔
شیانگ یوکائی کے مطابق خشک زمین زراعت کی چینی ٹیکنالوجی نہ صرف وسائل کا ضیاع روکتی ہے اور مئو ثر طریقے سے پانی کی بچت کرتی ہے بلکہ مٹی کی زرخیزی کو بہتر کرکے مٹی کی سطح میں بخارات میں کمی کرسکتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال آسان اور کم لاگت ہے۔
آصفہ نے گندم اور مکئی پر بہت زیادہ تحقیق کی جس میں خشک سالی کے دباؤ میں فائٹوہارمونز کے کردار کا مطالعہ کرنے کے لئے جڑوں کے تجربات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے پاکستان میں مکئی اور گندم کی کاشت کے تجربات میں پانی کی بچت کی چینی ٹیکنالوجی کا بھی اطلاق کیا۔
اس کام میں شیانگ نے ان کی معاونت کی جس میں تحقیقی مقاصد کے لئے لیبارٹری سہولت کی فراہمی اور قیام، جامعہ لان ژو کی جانب سے فراہم کردہ فنڈنگ منصوبوں میں مدد شامل ہے ۔
آصفہ نے کہا کہ انہوں نے کس طرح فلیٹ پلانٹنگ اور ریج فورو پلانٹنگ کی جس سے پاکستان میں زرخیزی اور فصل کی پیداوار بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے چینی ٹیکنالوجی کا موازنہ بوائی کی مقامی ٹیکنالوجی سے کیا ۔ انہوں نے خاص طور پر غریب مقامی کسانوں پر بھی توجہ مرکوز کی کہ وہ کس طرح چینی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرکے اپنی پیداوار بڑھاسکتے ہیں۔
انہیں پورا یقین ہے کہ چین کی ریج اینڈ فرو ملچنگ ٹیکنالوجی فلیٹ پودے لگانے کی نسبت زیادہ پیداوار دے سکتی ہے۔ یہ خشک زمین زراعت ٹیکنالوجی کا ایک حصہ ہے۔
انہوں نے جب پاکستان کے خشک علاقوں کے آزمائشی کھیتوں میں اس ٹیکنالوجی کی جانچ کی تو انہیں یقین تھا کہ وہاں اچھے نتائج ملیں گے۔
انہوں نے صوبہ گانسو میں متعدد مقامات کا دورہ بھی کیا جہاں مقامی کسانوں نے فصل حاصل کرنے اور اپنے اہل خانہ کی خوراک کے لئے پانی کی بچت ٹیکنالوجی کا اطلاق کیا تھا۔
ان کی رائے میں چین غریب افراد کو ایک اچھی زندگی دینے کے لئے انتھک محنت کررہا ہے جو پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔
آصفہ نے کہا کہ وہ چینی زرعی ٹیکنالوجی کو پاکستان میں لانا چاہتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مقامی کاشتکار فائدہ اٹھائیں اور ان کا معیار زندگی بہتر ہو۔
انہوں نے ٹیکنالوجی کو سیکھنے کے ساتھ ساتھ اس تھیوری کے حوالے سے تحقیق پر توجہ مرکوز کی۔انہوں نے متعدد جدید ڈیزائن اور تکنیک بارے تجا ویز دیں اور اس کا عملی مظاہرہ کیا جو کئی اعلیٰ درجے کے جرنلز میں شائع ہوئے۔
وہ اس کے علاوہ چین، افریقہ، آسٹریلیا اور پاکستان کے سائنسدانوں کے ساتھ ملکر کام کرچکی ہیں۔ انہوں نے جامعہ لان ژو کے زیر اہتمام منعقدہ کئی بین الاقوامی فورمز اور اجلاسوں کے انتظامات میں مدد دی کیونکہ وہ اپنی مادری زبان اردو کے ساتھ ساتھ چینی اور انگریزی دونوں زبانوں میں اچھی مہارت رکھتی ہیں۔
آصفہ کے مطابق انہوں نے شرکاء کو ان کی رہائش اور فورم میں شرکت بارے معاونت کی اور انہیں روزمرہ کی ضروریات بارے سہولت فراہم کی۔ جامعہ لان ژو اس ضمن میں ان پر مکمل اعتماد کر تی ہے ۔
جامعہ لان ژو میں اپریل 2023 میں بیلٹ اینڈ روڈ یونیورسٹی الائنس فورم منعقد ہوا تھا۔
آصفہ نے متعددرضاکارانہ کام کئے جس میں شرکاء کے دعوت نامے اور ویزا خطوط کا انتظام کرنا اور جامعہ میں انہیں اپنی تخلیقات پیش کرنے سمیت دیگر سرکاری ملاقاتوں میں سہولت کی فراہمی شامل تھی۔
آصفہ نے بتایا کہ یہ سب متاثر کن تجربات تھے کیونکہ اس نے مجھے دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے افراد سے بات چیت اور خیالات کے تبادلے کا ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے ۔
آصفہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد پاکستان میں چینی زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کی خواہش مند ہیں اور ان کا خیال ہے کہ چین اور پاکستان کو مزید شعبوں میں تعاون کرنا چاہیے۔