کراچی ( رپورٹ: راؤ محمد جمیل ) سندھ پولیس کی امن و امان میں مسلسل ناکامی ڈکیتی راہزنی ، اغوا برائے تاوان میں تشویشناک حد تک اضافے اور سہولیات کی عدم فراہمی چند اعلیٰ اور بااثر پولیس افسران کی ہولناک کرپشن کا شاخسانہ نکلی سندھ بھر کے تھانوں کے نام پر سالانہ بنیادوں پر جاری ہونے والا اربوں روپے کا بجٹ چند پولیس افسران کی جانب سے مسلسل اور دھڑلے سے ہڑپ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے سندھ پولیس کے اہم ذرائع سے ” حمایت ” کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے پولیس کی ضروریات اور سہولیات کیلئے سالانہ اربوں روپے کا بجٹ سندھ پولیس کو جاری کیا جاتا ہے جو بعدازاں منصفانہ طریقے سے سندھ بھر کے تھانوں کے ایس ایچ اوز تقسیم کرنے کی ذمہ داری آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جیز کی ہے ذرائع کے مطابق مذکورہ بجٹ حکومت سندھ سے وصول تو کیا جارہا ہے تاہم پر اسرار طور پر اسکی دیانتداری سے ترسیل نہیں کی جارہی ذرائع کے مطابق تھانوں کی سطح پر بجٹ کی ترسیل ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز آفس سے ہوتی تھی تمام تھانیدار اپنے تھانے کا ماہانہ بجٹ باقاعدگی سے تیار کرکے ہیڈ محرر کی معرفت مذکورہ افسران کے دفاتر پہنچانے کے پابند تھے تاہم رقم کی وصولی سے قاصر تھے ذرائع نے "حمایت ” کو بتایا کہ سابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اپنی بطور ایڈیشنل آئی جی کراچی تعیناتی کے دوران ڈی ڈی او پاور تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو منتقل کردی تھی ڈی ڈی او پاور کی ایس ایچ اوز کو منتقلی کے بعد باقاعدہ طور پر سینٹرل پولیس آفس میں فنانس ڈیپارٹمنٹ کا وجود عمل میں لایا گیا اور باقاعدہ طور پر افسران کو تربیت بھی دی گئی مذکورہ ڈیپارٹمنٹ تاحال ناصرف قائم ہے بلکہ تنخواہوں سمیت دیگر مراعات بھی سمیٹ رہا ہے ” حمایت ” کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ڈی ڈی او پاور ایس ایچ اوز کو ملنے کے بعد ہر تھانے کے حصے میں آنے والی رقم متعلقہ ایس ایچ او کے اکاﺅنٹ میں ٹرانسفر کی جاتی تھی دلچسپامر یہ ہے کہ بجٹ کی رقم ایس ایچ کو وصول تو ہوتی تھی تاہم واپس جمع کرانے کی شرط پر ، ایس ایچ اوز کو مذکورہ رقم استعمال کرنے کی سختی سے اجازت نہیں تھی بلکہ اکاﺅنٹ میں آنے والی رقم واپس علاقہ ایس ایس پی کے دفتر میں باقاعدہ اور فوری طور پر انتہائی دیانت داری سے واپس جمع کرانے کے سخت احکامات تھے ذرائع نے "حمایت ” کو بتایا کہ بدترین خوردبرد اور فنڈز کی متعلقہ تھانوں کو عدم فراہمی نے محکمہ پولیس کو لاچار اور معذور کرکے رکھ دیا ہے تھانوں کے دفتری اخراجات ، پیڑول اور ڈیزل کی مناسب مقدار میں عدم فراہمی کے علاوہ پولیس موبائلوں کی مینٹینس اور دیگر ضروری اخراجات کے حصول کیلئے ایس ایچ اوز سمیت تھانوں میں تعینات پولیس افسران اور اہلکاروں کو خود وسائل پیدا کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے جسکے باعث محکمہ پولیس میں لاقانیت اور رشوت وصولی پولیس کی مجبوری اور ضرورت بن چکی ہے ” حمایت ” کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق مذکورہ روایت کے قیام کے بعد تمام ایس ایچ اوز دیگر پولیس افسران اور اہلکاروں نے تھانے کی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بہتی گنگا میں غوطے لگاتے ہوئے ” رشوت ” کو اپنی ضروریات کا حصول ، نوکری اور زندگی کا بنیادی حصّہ بنا لیا ذرائع کے مطابق مذکورہ اقدامات اور روایت سے کراچی سمیت سندھ بھر میں مختلف جرائم اور گھناونے دھندوں کا اضافہ ہوا ایک جانب رینکر افسران نے مجبوراً رشوت کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر بدنامی خریدی تو دوسری جانب چند اعلیٰ اور بااثر پولیس افسران اربوں روپے کے فنڈز ہڑپ کرنے کے باوجود دیانت داری کے تمغے سجائے فخریہ انداز میں ایس ایچ اوز اور دیگر چھوٹے پولیس اہلکاروں کی قسمت کے فیصلے کرنے پر قادر رہے ذرائع نے ” حمایت ” کو بتایا کہ سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی ذاتی کاوشوں سے سندھ پولیس کے فنڈز کا کچھ حصہ جو ذرائع آٹے میں نمک کے برابر قرار دے رہے ہیں نچلی سطح کے افسران کو فراہم کیا گیا جو پولیس کے نظام کو قدرے بہتر کرنے کیلئے استعمال ہوا اس دوران پولیس کو موٹر سائیکل اور موبائلیں فراہم کرنے کے علاوہ بعض تھانوں کی تزئین و آرائش کیلئے بھی عملی اقدامات کیے گئے جبکہ مختلف تھانوں میں آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ماضی میں (KPO ) کراچی پولیس آفس پر المناک اور بدترین دہشت گردانہ حملے کے بعد حساس اداروں کی رپورٹ میں کراچی کے بعض تھانوں ، پولیس لائین اور پولیس کواٹرز پر حملوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا اس دوران سندھ حکومت نے فوری طور پر سندھ پولیس کو بھاری فنڈز جاری کیے جو ماضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو کی موجودگی میں ہڑپ کر لئے گئے ذرائع کے مطابق سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کے بعد تعینات ہونے والے موجودہ ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی ڈی ڈی او پاور ایس ایچ اوز سے لیکر متعلقہ ایس ایس پی آفس کے حوالے کر دی جاوید عالم اوڈھو کی طاقت اور بااثر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غلام نبی میمن کے اقدامات کو ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے جب پاؤں تلے روندا اس وقت غلام نبی میمن آئی جی سندھ تعینات تھے ذرائع کی جانب سے ” حمایت ” کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق شہر قائد میں کم و بیش 108 تھانے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر سندھ حکومت کی جانب سے جاری فنڈز کو منصفانہ طور پر تقسیم کیا جائے تو ڈیڑھ کروڑ روپے سالانہ ہر تھانے کو حاصل ہونگے اور قوی امکان ہے کہ اس سے ناصرف تھانوں میں تعینات پولیس افسران اور اہلکاروں کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ رشوت کے ساتھ ساتھ جرائم کا مکمل خاتمہ نہیں تو اس میں نمایاں کمی ضرور دیکھنے میں آئے گی۔