کراچی (تحریر:آغاخالد)
افغان وزیر خارجہ کے دو بھائی کراچی میں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں ان کی ایک بیٹی بھی کراچی کی نواحی پوش بستی میں بیاہ کر آئی ہیں اس کے علاوہ بھی طالبان حکومت کی اہم شخصیات کے بھائی یاخاندان کراچی میں پر آسائش طور پر رہائش پزیر ہیں مگر دوسری طرف افغان سرحدوں سے متصل ہمارے علاقوں میں دہشت گردی کرنے والوں کو ہمارے برادر اسلامی ملک میں مکمل تحفظ حاصل ہے جنہیں خود کش جیکٹس اور جدید ہتھیاروں سے لیس کرکے بھیجاجاتاہے کہ وہ پاکستان کے دفاعی اداروں پر حملے کریں اور عوام کو خود کش دھماکوں میں شہید کیاجائے ان دہشت گردوں کے قندھار اور کابل کے ارد گرد محفوظ ٹھکانے ہیں ایسا کیوں ہے، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں،
الحمداللہ تخلیق پاکستان کا نعرہ ہی مبنی بر لاالہ الااللہ تھا یہ اور بات ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی مملکت کی اول درجہ کی قیادت قائد اعظم سمیت اکثریت لادین تھی مگر برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی جنونیت سے آشنا انگریز کے ایماء پر تقسیم ہند کی بنیاد ہی مذہب رکابیہ پر رکھی گئی یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی شدت پسندی سے باہر نہ نکل سکے، کبھی افغان طالبان، کبھی القاعدہ، کبھی داعش، کبھی شیعہ سنی، کبھی سعودی، کبھی ایرانیوں کے تخیلاتی ایمان پروری کی مثالیں دے کر من میں بسی نخل آرزو کو عقائد کے دیدہ زیب پیرہن میں پروکر ہم جیتے ہیں ہماری اشرافیہ کی پالیسیوں کے کمال کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ 2000 میں خبریں کراچی سے اجراء کے وقت مجھے چیف رپورٹر کے منصب پر فائز کیا گیا تو میری رہائش کراچی کے لائنز ایریا کے فلیٹس میں تھی اس پر ادارہ کے کراچی میں ڈائرکٹر شبیر چودھری کی میہربانی سے میری تنخواہ میں رہائشی اضافی الائونس لگاکر مجھے ڈیفنس ویو کے فیز 2 میں 120 گز کے گھر منتقل کیاگیا جہاں میرے پڑوس میں ان دنوں اسامہ بن لادن رہائش پذیر تھے ان کی جب نقل و حرکت ہوتی تو ان کے ساتھ ایک دو نہیں درجنوں مسلح رضاکاروں کی گاڑیاں ہوتیں جن میں ایک مقامی پولیس اور کچھ دیگر حفاظتی اداروں کی بھی گاڑیاں ہوتی تھیں ان دنوں سامراج کی تازہ ناراضگی کے سبب اسامہ کی مشکلات شروع ہوچکی تھیں اس لئے ہمارے والوں کی طرف سے اس کی حفاظت کے فول پروف انتظامات کئے گئے تھے اور انہیں سربراہ مملکت کے برابر پروٹو کول دیاجارہاتھا، جس سے ہم جیسے لاوارث پڑوسیوں کو مشکلات درپیش تھیں مگر اس موقع پر بولنا غداری کے مترادف تھا،ایسے ہی فیصلوں نے آج ہمارے ملک کے مستقبل کو گرہن لگادیاہے آج کل ہمارے ہاں اسٹبلشمنٹ سے ناراض ایک طبقہ ہمارے پڑوسی افغان طالبان کی ایمانداری ان کے فوری انصاف کے نظام عدل اور عمائدین حکومت کی انکساری کی مثالیں سوشل میڈیا پر ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہا ہے اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ملاعمر اس دور کے عظیم مجاہد تھے اور آج بھی کچھ طالبان رہنما کردار کے حقیقی غازی ہیں مگر اکثریت اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر زرپرستی کی لت میں پڑچکی ہے یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے انقلاب ایران میں ہوا جس کے داعی علامہ خمینی اپنے دور کے مرد قلندر تھے ان کا یہ تاریخی جملہ آج بھی زباں زدعام ہے کہ "تم نماز میں ہاتھ باندھ کر یاچھوڑکر پر لڑتے رہوگے اور دشمن تمہیں ادھیڑ کررکھدے گا” اور ان کے بعد کی قیادت عظیم انقلاب ایران کے اصل مقاصد کو بھول کر فروعی اختلافات میں پڑ گئی تو بات ہورہی تھی افغان طالبان کی کہتے ہیں نہ کہ دکھاوے کے ہاتھی دانت کا حقیقت سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا طالبان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی جن کی سادگی کے بڑے چرچے ہیں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے کئی بھائی ہیں مگر ان کے ایک بھائی محمد نبی نے کراچی میں نادرن بائی پاس پر حال ہی میں کروڑوں روپیہ کی 7 ایکڑ زمین مہنگے داموں خریدی ہے جہاں وہ فارم ہائوسز اور قربانی کے جانوروں کی بھی پرورش کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ بھی متعدد افغان حکومت کے عمائدین نے کراچی میں بڑے پیمانے پر اپنے بھائیوں،عزیزوں یا اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کے ذریعے سرمایہ کاری کر رکھی ہے ایساکیوں ہورہاہے یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلاتا رہتاہے مستند ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ غنی حکومت کے زوال اور نیٹو یا امریکی افواج کے اپریل 2021 میں انخلاء کے وقت بلوچستان کی علیحدگی پسند متعدد تنظیموں کے کئی ارب ڈالر قندھار کے نواح میں ان کے متعدد ٹھکانوں یا غاروں میں رہ گئے تھے پاکستانی اداروں کادعوا ہے کہ اتنی بڑی رقوم انہیں بھارت اور مغربی ممالک سمیت کچھ پڑوسی عرب ممالک نے دی تھیں جس کا مقصد سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ کو غیر محفوظ کرکے چین کے حوصلے توڑنا اور پاکستان کوغیر مستحکم کرنا تھا در اصل بلوچ علیحدگی پسندوں کو طالبان کی مستقبل کی پالیسیوں پر بھروسہ نہیں تھا اور اس وقت ان کا خیال تھا کہ پاکستان کے احسانوں تلے دبے طالبان کا ان سے سلوک جارحانہ ہوگا اس لئےطالبان سے خوف زدہ نیٹو کے انخلاء سے چند روز قبل تمام بلوچ علیحدگی پسند افغانستان سے بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں افرا تفری میں منتقل ہوے تو اس بھگدڑ میں ان کے مالی اثاثے اور اسلحہ کی بڑی تعداد بھی وہیں رہ گئی تھی جس کی منتقلی کے لئے ان جنگجووں کے سرپرست ان دنوں سخت پریشاں پائے جاتے تھے اور وہ ایسے طالبان کی تلاش میں تھے جو کسی معقول معاوضے کے عوض یہ اثاثے افغانستان سے بلوچستان میں ان کی محفوظ کمیں گاہوں تک منتقل کرسکیں وہ ان کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے مگر اس کا بڑا فائدہ کچھ مفاد پرست طالبان نے بھی اٹھایا اور ہمارے ہاں بھی کچھ لوگوں کے ہاتھ ایسے کچھ اثاثے لگے یہ بھاری رقوم ان دو نمبر طالبان نے بعد ازاں کراچی میں زمینوں کے کاروبار میں لگائی جس سے ان دنوں زمینوں کے نرخ آسمانوں کو چھونے لگے تھے کراچی تو اب افغانوں کی بکرا منڈی بن چکاہے ہماری 40 سالہ افغان پالیسی کاثمر ہے اور اگر اس سیل رواں کو نہ روکا گیاتو کراچی مکمل طور پر شکاگو بن جائے گا جہاں ہرسو آج بھی بد امنی کا دور دورہ ہے اور لاکھوں افغان اپنی پرانی گاڑیوں کی ڈگیوں میں کروڑوں روپیہ لے کر یوں جائدادیں خرید رہے ہیں لگتاہے اگلے چند برس میں کراچی دوسرا قندھار بن جائے گا جہاں قبائلی رسم و رواج اور ان کے قوانین کاراج ہوگا ایسی سرمایہ کاری کرنے والوں میں طالبان کی بڑی تعداد کے ساتھ ان کے بدترین مخالفین اور سابقہ پاکستان دشمن حکومتوں کی اہم شخصیات بھی شامل ہیں آپ یقین کرسکتے ہیں ہمارے وطن میں روزانہ خون کی ہولی کھیلنے والے؛ "برے طالبان” کے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے تیغ مہند سے مسلح ہوکر یہ وطن فروش ہماری بستیاں اجاڑتے ہمارے مسلح محافظوں پر حملے کرتے اور خود کش بمبار تیار کرکے بھیجتے ہیں اور اس ملک کے وزیر خارجہ امیرخان متقی کی بیٹی بھی کراچی کی ایک نوآبادی گلشن معمار میں بیاہ کر آئی ہیں طالبان حکومت کے اس وحشیانہ کھیل کے باوجود وہ محفوظ و باعزت زندگی گزار رہی ہیں نیٹو افواج سے اپنے ملک کو آزاد کروانے کی جدوجہد کے دوران اسی ملا متقی کو دشمنوں کی جانب سے ہلاک کرنے کی ایک کوشش میں ان کی گاڑی بم دھماکہ سے اڑادی گئی تھی جس میں وہ معمولی زخمی ہوے مگر ان کے بھائی محمد نبی کی آنکھ ضائع ہوگئی تھی اور اب وہ نقلی آنکھ کے ساتھ کراچی میں آباد ہیں ان کے تیسرے بھائی عبدالقادر بھی کراچی کے نواح میں رہتے ہیں جبکہ ایک اور بھائی احمد اللہ افغان خفیہ ایجنسی "خاد” میں اہم عہدہ پر فائز ہیں افغان جنگ میں امیر المومنین ملاعمر کے حقیقی متوالوں نے جہاں شجاعت اور بہادری کی اعلی مثالیں قائم کیں اور ان کے ہزاروں خاندان تباہ ہوے اور لاکھوں شہادتیں پائیں وہیں ہزاروں بدنیت طالبان کے روپ میں "زر” پرستوں اورہمارے ملک میں ان کے ساتھیوں نے خوب فائدے بھی اٹھائے اور آج ان کے تہ خانوں میں دولت کے انبار لگے ہوے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ کراچی میں بھی پیش آیا یہاں ایک متوسط طبقہ کی آبادی والے گلشن اقبال میں ایک مرحوم مگر اپنے وقت کے انتہائی قابل ڈاکٹر طلحہ صدیقی ہوتے تھے جن کی پریکٹس اتنی کامیاب تھی کہ وہ روزانہ مطب سے حاصل پونجی تھیلوں میں بھرکر لیجاتے تھے اللہ نے انہیں عجیب مسیحائی سے نوازہ تھا ان کے مریض انہیں طب کا جادوگر کہاکرتے تھے ان سے میری شناسائی ایک افغان طالبان کے پرجوش حامی پختون مولانا نے کروائی تھی جو کراچی کی ایک غریب بستی میں ایک مسجد کے پیش امام تھے ڈھلتی عمر کے ساتھ علاج معالجہ کی بڑھتی ضرورتوں کے تحت جلد ہی ہمارا تعلق ایک مسیحا اور مریض سے کہیں آگے بڑھ کر مبنی بر خلوص پرجوش دوستی میں بدل گیا اس تعلق کے کئی برس بعد انہوں نے ایک روز ان مولانا صاحب کے متعلق پوچھا جنہوں نے ہماری شناسائی کروائی تھی اور پھر اگلے چند ہفتوں میں ہونے والی متعدد ملاقاتوں میں بھی وہ دبے لفظوں تشویش کے ساتھ مولانا کے لاپتہ ہونے کاذکر کرتے رہے تو مجھے کچھ تشویش ہوئی مینے ان سے کھل کر بات کرنے کو کہاتو انہوں نے خاصے تردد سے بتایا کہ مولانا اکثر امیر المومنین ملا عمرسے ان کی خصوصی تعلق داری اور نسبت کا ذکر کرتے تھے اور افغان جہاد میں درپیش مالی مسائل کا بھی بتاتے رہتے تھے جبکہ مجھے ملا عمر سے بن دیکھے بن ملے بڑی عقیدت پہلے سے ہی تھی، اس مرد میداں نے کیسے ایام فقیری میں وسائل سے لدی عالمی قوت کو للکارا اور اسے ناکوں چنے چبوادئے سو مینے اپنے محدود وسائل سے جمع کرکے ایک کروڑ ان کے حوالے کیا اور کہاکہ یہ میری طرف سے ادنی تحفہ "ملا صاحب” تک میرے سلام عقیدت کے ساتھ پہنچادی جیئے اس دن سے مولانا غائب ہیں ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر مجھے بھی تشویش ہوئی اور مینے مولانا کے دیگر دوستوں سے کریدنا شروع کیا تو کچھ روز بعد ان کے خیبر پختون خواہ کے ایک پڑوسی مولانا نے بتایاکہ ملا صاحب تک امانت پہنچنے کا تو پتہ نہیں البتہ مولانا نے اپنے گائوں میں خاصی زمینیں خریدی ہیں اور اب وہ وہاں کی ماشااللہ سے معزز شخصیت بن چکے ہیں پھر ان مولانا صاحب کے ساتھ "رب” نے کیا کیا یہ بڑی دلخراش داستاں ہے مگر کاش کہ ہم لوگ روز مرہ پیش آمدہ قدرت کی پکڑ کے ایسے دل دہلادینے والے واقعات سے کچھ سیکھ سکیں اور ہمارے پالیسی سازوں کو بھی اللہ ہدایت دے کہ وہ افغانوں کے لئے بھی حب الوطنی پر مبنی کوئی واضع مگر ٹھوس پالیسی تشکیل دے سکیں ورنہ ضیاء کا بویا قوم آج کاٹ رہی ہے تو اگلے دس بیس برس بعد ہماری اگلی نسل آج کا بویا کاٹے گی اور دعاء اور بد دعاء کے درمیان آج کے فیصلے خط مسقیم مفروضی ثابت ہوں گے