اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چئیرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ایک روز کےلئے ملتوی کردی ۔جمعرات کو چئیرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی ۔چیئرمین پی ٹی آئی کی وکلاء ٹیم عدالت میں پیش ہوئی جب کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے امجد پرویز اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔ چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہا کہ خواجہ حارث پیش نہیں ہورہے، ان کے منشی کو اغوائ کیا گیا تھا۔ خواجہ حارث کا اس سے متعلق بیان حلفی دے رہا ہوں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ روز سپریم کورٹ کی جانب سے کیس کی سماعت کے حکم سے متعلق کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کا آرڈر بھی ملا ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر دلائل دوں گا، البتہ سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن افسر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا مجاز قرار دے سکتا ہے۔سیکرٹری نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا کہا۔عمران خان کی سزا کے دورانیے کے حوالے سے لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کا دورانیہ تین سال قید تھا۔تاہم صدر پاکستان نے 14 اگست کو قیدیوں کی 6 ماہ سزا معاف کی جس کے بعد عمران خان کی بھی 6 ماہ کی سزا معاف کی جا چکی ہے۔عدالت نے لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ درست نہیں؟ جس پر عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں۔ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ان کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں۔سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کمپلینٹ ٹرائل کے لئے ڈائریکٹ سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون کے مطابق کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گا۔لہٰذا ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کے باعث برقرار نہیں رہ سکتا، اسی لئے استدعا ہےکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کردی جائے اور سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر ہم دوبارہ عدالت کے سامنے آئیں گے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں تمام ایشوز پر فیصلہ دیا گیا اور حتمی فیصلے میں کیا ٹرائل کورٹ نے وجوہات دیں؟اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جوفیصلہ دیا تھا وہ ہائی کورٹ کالعدم قرار دے چکی اور ٹرائل کورٹ نے وجوہات بھی نہیں دیں۔البتہ ٹرائل جج نے آپ کو اگنور کیا، سوری آپ کے فیصلے کو اگنور کیا۔ لطیف کھوسہ کے جملے پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔دوران سماعت جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو کس بنیاد پر غیر متعلقہ کہا؟ وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیر متعلقہ قرار دیا لیکن اس کی وجہ نہیں لکھی گئی۔عمران خان کے وکیل نے عدالت میں شکوہ کیا کہ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے سے روکا نہیں۔ملزم کو گواہ پیش کرنے سے روکا ہی نہیں جا سکتا، 4 گواہ پیش کر رہے تھے کوئی 40 نہیں تھے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد چیف جسس اسلام آباد ہائی کورٹ نے امجد پرویز سے استفسار کیا کہ امجد صاحب کیا آپ نے کچھ کہنا ہے؟ امجد پرویز کا کہنا تھا کہ کھوسہ صاحب میرے نکاح کے گواہ بھی ہیں۔اس پر ایک بار پھر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے روسٹرم پر آگئے اپنے دلائل میں کہا کہ ریکارڈکےمطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو5اگست کو سزا سنائی گئی، اور 8 اگست کو فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، ملزم 342 کے بیان میں کہتا ہے و ہ گواہان پیش کرنا چاہتا ہے۔مطلب ملزم نے مانا پراسیکیوشن نے کیس ثابت کردیا۔لہٰذا یہ مس ڈیکلیریشن کا کیس ہے۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 3 سوالات ہیں، ایک مجسٹریٹ، دوسرا دورانیہ اور تیسرا اتھارٹی والا ہے۔