اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دور ان جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دےدی اور ریمارکس دیئے ہیں کہ فوجی عدالتوں والے مقدمے میں بھی فل کورٹ بنانے کی تجویزدی تھی ،میرا اعتراض ہے کہ اس طرح کے معاملات فل کورٹ ہی سن سکتی ہے جبکہ چیف جسٹس نے 28 اگست سے روزانہ کی بنیادوں پر سماعت کرنے کے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضروری نہیں کہ کیس کے میرٹس پر ہی فیصلہ کریں،ممکن ہے کیس کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ آئے، میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، فیصلہ نہ دیا تومیرے لئے باعث شرمندگی ہوگا۔جمعہ کو چیف جسٹس عمرعطاءبندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پرسماعت کی۔جسٹس منصورعلی شاہ نے سماعت کے آغاز میں ہی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی اور ریمارکس دیئے کہ ابھی تک پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا فیصلہ نہیں ہوا اگرفیصلہ ہو جاتا تومعاملہ مختلف ہوتا، چیف جسٹس سے آج بھی درخواست کرتا ہوں کہ نیب ترامیم فل کورٹ سنے ۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل ڈاکٹر یاسرعمان پیش نے دلائل دینے کی اجازت دی جس پر چیف جسٹس نے فریقین کو آئندہ سماعت پرحتمی دلائل کی ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس نے 28 اگست سے روزانہ کی بنیادوں پر سماعت کرنے کے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ کیس کے میرٹس پر ہی فیصلہ کریں،ممکن ہے کیس کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ آئے، میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، فیصلہ نہ دیا تومیرے لئے باعث شرمندگی ہوگا ۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیس میں پہلے دن سے پوچھ رہا ہوں کہ کونسا بنیادی حقوق متاثرہوئے ہیں، 47 سماعتوں میں ابتک نہیں بتایا گیا چیف جسٹس نے مخدوم علی سے استفسار کیا کہ آپ میرٹ پردلائل دینے سے کیوں کترا رہے ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میرٹ پر دلائل دینے سے نہیں کترا رہا، مقدمہ کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ اٹھانا میری ذمہ داری ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سماعت سے نکلنے کی کوشش کیوں کررہے ہیں،مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کا اختیارہے کہ میرا موقف تسلیم کرے یا مسترد کرے،عدالت نے کیس کی سماعت اٹھائیس اگست تک ملتوی کردی۔