کراچی(نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے گجر، اورنگی اور محمود آباد نالوں کے 6 ہزار 932 متاثرین کو 7 دن میں معاوضوں کے چیکس تیار کرکے 30 دن میں ادا کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے چیک کے عوض کمیشن مانگنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور 15 روز میں پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم جاری کردیا۔جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل اسپیشل بینچ نے گجر، اورنگی اور دیگر نالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔وزیر اعلی مراد علی شاہ، سابق وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ، مئیر کراچی مرتضی وہاب، کمشنر کراچی اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر رپورٹ کے ہمراہ پیش ہوئے۔جسٹس محمد علی مظہر نے متاثرین کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ سے کہا کہ بتائیں، آپ کی توہین عدالت کی درخواست کیا ہے؟ فیصل صدیقی موقف دیا کہ 2 سال میں چیک کی 4 اقساط ادا کی جانی تھیں، اب تک صرف 2 چیک کی اقساط ادا کی گئیں۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ سی ایم صاحب، چیف سیکرٹری صاحب آگے آجائیں۔میئر کراچی مرتضی وہاب نے بتایا کہ متاثرین کی تعداد 6 ہزار 932 ہے، یہ متاثرین محمود آباد، گجر اور اورنگی نالوں کے متاثرین ہیں، پہلی 2 اقساط ادا کردی گئی ہیں بقیہ 2 چیکس لوگ لینے نہیں آئے، محمود آباد کے چیکس کا 2 سالہ پیریڈ شروع ہوچکا، کچھ لوگ تیسرا اور چوتھا چیک بھی لے چکے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اس معاملے میں کوئی فوکل پرسن تعینات نہیں کیا؟ کوئی کمیٹی نہیں بنائی؟ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ یہ بیان ناقابل یقین ہے کہ لوگ چیک لینے نہیں آئے جب 2 چیک لوگوں نے لیے تو باقی لینے کیوں نہیں جائیں گے؟جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ سی ایم صاحب یہ معاملہ حل کرنا ہے، باہر لوگوں کا احتجاج چل رہا ہے، آپ نے حلفیہ بیان دیا تھا۔وزیر اعلی مراد علی شاہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں تیسری، چوتھی سماعت میں پیش ہو رہا ہوں، کراچی میں 2020 میں شدید برسات ہوئی، 2007 کی برسات میں کئی ہلاکتیں ہوئیں، نگران وزیر اعلی آج حلف لے رہے ہیں، آج تک وزیر اعلی ہوں، 2020 کی بارش کے بعد سپریم کورٹ نے نالے صاف کرنے کا حکم دیا، نالوں کی صفائی اور متاثرین کی بحالی کا معاملہ این ڈی ایم اے کی ذمہ داری تھی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ احساس پروگرام، نیا پاکستان کے تحت 36 ارب روپے متاثرین کے لیے رکھے گئے، 2021 میں وفاقی حکومت نے یوٹرن لے لیا اور رقم نہیں دی، نالوں سے متعلق این ای ڈی یونیورسٹی سے سروے کروایا گیا، ہیرا پھیری کی وجہ سے 6 ہزار 932 پر متاثرین کی تعداد کو لاک کردیا گیا، دس ارب کی اسکیم بنائی جس کے لیے پیسے نہیں تھے کیوں کہ وفاق سے نہیں ملے پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔انہوں نے کہا کہ ایک نجی ہاﺅسنگ اسکیم کے پیسے جو سپریم کورٹ میں پڑے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ رقم کراچی کی اسکیمز پر لگائی جاسکے، سپریم کورٹ نے بلو ربن کمیشن بنایا کہ نجی ہاسنگ اسکیم کی رقم کہاں خرچ ہوگی، کمیشن سے 10 ارب روپے مانگے ہیں مگر درخواست ہماری زیر سماعت ہے۔فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ غلط بیانی کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے درخواست مسترد کردی تھی اور سندھ حکومت کو اپنے فنڈز سے اسکیم شروع کرنے کا حکم دیا تھا، وزیر اعلی نے سپریم کورٹ نے اپنے فنڈز سے اسکیم مکمل کرنے کا بیانِ حلفی دیا، گیس، بجلی، پانی کی سہولیات بھی متاثرین کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔ یہ اسکیم سندھ حکومت نے خود اپنے فنڈز سے مکمل ہونی تھی، متاثرین ان کی وجہ سے بے گھر ہوئے، یہ گھر سپریم کورٹ کی وجہ سے نہیں سندھ حکومت کی وجہ سے گرائے گئے۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر نے موقف دیا کہ یہ بیان غلط ہے اس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ فیصل صدیقی نے جو کہا وہ ٹھیک ہوگا مگر ہم بلیو ربن کمیشن میں گئے ہوئے ہیں۔جسٹس مظہر نے وزیر اعلی سے کہا کہ آخری آرڈر میں تو آپ کا حلفیہ بیان لکھا ہوا ہے اس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت متاثرین کی بحالی سے مکر گئی، سارے فنڈز تو سندھ حکومت سے جنریٹ نہیں ہوتے، 2022 کے سیلاب پر 66 ارب روپے خرچ ہوئے یہ سیلاب ریلیف فنڈز وفاقی اور صوبائی تھا، وزیر اعلی سندھ تو کچھ نہیں ہوتا کابینہ ہوتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بات آپ کو حلفیہ بیان دیتے وقت کہنی تھی اس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ میں شام 6 بجے تک وزیر اعلی سندھ ہوں پھر نگراں وزیراعلی حلف لیں گے۔عدالت نے کمشنر کراچی کو متاثرین کو بقایاجات کے چیکس دینے کا حکم جاری کردیا۔دوران سماعت متاثرین نے بتایا کہ چیکس کی رقوم سے حصہ مانگا جارہا ہے، 90 ہزار میں سے 10 ہزار مانگے جارہے ہیں، خدشہ ہے درمیان میں افسران یہ رقم مزید مانگیں گے۔ جسٹس اظہر رضوی نے کہا کہ نام دیں جو پیسے مانگ رہا ہے، کمشنر پیسے مانگنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ یہ چیک ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاتے ہیں کمشنر کراچی سے متعلق یہ بیان درست نہیں۔میئر کراچی نے کہا کہ ڈی سی ساﺅتھ کے دفتر سے چیک دینے کا عمل شروع کردیتے ہیں۔ جسٹس مظہر نے کہا کہ جس نے پیسے مانگے اس کے خلاف کون کارروائی کرے گا؟ کمشنر کراچی نے کہا کہ ایڈیشنل کمشنر کارروائی کریں گے۔ میئر کراچی نے کہا کہ 7 دن چیک بنانے میں لگیں گے، 7 دن کے اگلے 30 دن میں چیک متاثرین کو دے دیں گے۔جسٹس مظہر نے کہا کہ چیف سیکریٹری صاحب، یہ لوگ چلے جائیں گے اگلی حکومت آئے گی، یہ سب معاملات آپ کو دیکھنے ہیں، ہم توہین عدالت کی درخواست نمٹا نہیں رہے چاہتے ہیں اگر حکم پر عمل نہ ہوا تو وزیر اعلی سندھ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آپشن موجود ہے۔متاثرین کو زمین دینے کے معاملے پر چیف سیکریٹری نے کہا کہ زمینوں پر بڑے مسائل ہیں، زمین دے دیں تو مگر اس پر طویل عرصے تک مقدمہ بازی چلتی ہے، میری تجویز ہے کہ رقم دے دی جائے۔مرتضی وہاب نے کہا کہ متاثرین کی آباد کاری کے لیے زمین دیکھ لی ہے مگر زمینوں کے تنازعات کے الگ مسائل ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں مسائل پیدا نہ ہوں۔چیف سیکریٹری نے کہا کہ حکومت کے پاس زمین ہے مگر متاثرین کے سامنے دونوں آپشن رکھ دیتے ہیں جو لوگ پیسے لینا چاہتے ہیں وہ پیسے لے لیں جو پلاٹ لینا چاہتے ہیں وہ پلاٹ لے سکتے ہیں اب دیکھنا یہ ہوگا کہ متاثرین کیا فیصلہ کرتے ہیں۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی وزیر اعلی کو حاضری سے استثنی دے دیں اس پر جسٹس مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ہم مراد علی شاہ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ ججز اور وزیر اعلی سندھ کا خوشگوار مکالمہ ہوا۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی شخص ہیں، عدالت آنا کیا مشکل ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ عدالت جب بلائے گی حاضر ہوں گا۔ جسٹس اظہر رضوی نے کہا کہ آپ سیاسی آدمی ہیں، یہاں آنے سے آپ کو سیاسی فائدہ ہوگا۔ مراد علی شاہ نے مسکراکر جواب دیا کہ مجھے ایسا سیاسی فائدہ نہیں چاہیے۔ بعدازاں عدالت نے مراد علی شاہ کو حاضری سے استثنی دے دیا۔بعد ازاں عدالت عظمی نے گجر نالہ، محمود آباد اور اورنگی نالہ متاثرین بحالی کیس میں بڑا فیصلہ دے دیا۔ عدالت نے 6 ہزار سے زائد متاثرین کو چیکس ادا کرنے کا حکم جاری کردیا اور کہا کہ 7 دن میں چیکس تیار کیے جائیں اور اگلے 30 دن میں متاثرین کے حوالے کردیے جائیں۔ چیکس ڈی سی جنوبی سے ادا کیے جائیں۔عدالت نے احکامات دیئے کہ کمشنر کراچی چیکس کی ادائیگی میں شفافیت کو یقینی بنائیں، اگر کوئی بے ضابطگی کرے تو ایڈیشنل کمشنر کارروائی کرے، ایڈیشنل کمشنر 2 کو فوکل پرسن بھی تعینات کیا جائے، متاثرین 10 بجے صبح سے 2 بجے تک وصول کرسکیں گے، چیکس کی ادائیگی پیر سے جمعہ تک ہوگی، ڈپٹی کمشنر جنوبی چیکس کی بروقت ادائیگی یقینی بنائیں۔عدالت نے کہا کہ متاثرین کی بحالی کے لیے 2 آپشنز پیش کیے گئے، حکومت اور متاثرین نمائندگان ان آپشنز پر غور کریں، پہلا آپشن، سندھ حکومت متاثرین کو زمین کی خریداری اور تعمیرات کی رقم ادا کرے، متاثرین کہاں سے بے گھر کیا گیا اس کی مالیت کے مطابق رقم ادا کی جائیں، اسی اسکوائر یارڈ کے پلاٹ اور تعمیرات کی رقم شامل ہوگی۔فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے لاگت کا تخمینہ لگوایا جائے گا، دوسرے آپشن میں زمین سندھ حکومت دے گی اور گھر بنانے کے لیے رقم بھی، سندھ حکومت نے بتایا ہے کہ متاثرین کو زمین ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں دی جائے گی، ان دونوں آپشن پر سندھ حکومت اور متاثرین کے نمائندے غور کریں، عدالت نے 15 روز میں پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کا حکم دےدیا۔ عدالت نے احکامات دیئے کہ ان دونوں آپشنز سے متعلق اخبارات میں اشتہارات شائع کروائے جائیں۔کیس کی سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کی طرف سے توہین عدالت کی درخواست لگی تھی، نالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت تھی، ناراضگی حکومت سے اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگوں کی چھت نہ چھینیں، وفاق نے 36 ارب روپے کی اسکیم دی تھی کہا کہ فلیٹ بناکر دیں گے، سیلاب کی وجہ سے کام نہیں کر پائے۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے لوگوں کے 462 ارب روپے سپریم کورٹ کے پاس ہیں، ہم نے ماہانہ رپورٹ جمع نہیں کرائی تھی، جس پر عدالت سے معذرت کی، عدالت نے میری ذاتی حیثیت میں پیشی کو ختم کردیا ہے، ہم نے کہا ہے کہ متاثرین کے باقی دو چیک 15 دن میں تیار کرلیں گے، ہم پلاٹ کے پیسے اور کنسٹرکشن کے پیسے دونوں دینے کو تیار ہی، عدالت نے دو آپشن متاثرین کے سامنے رکھے ہیں۔