نیویارک( نیٹ نیوز )
امریکی ڈالر کی بالادستی کو کم سے کم کرنے کے لیے نئی برکس کرنسی متعارف کرانے کی بات زور پکڑ رہی ہ جبکہ برازیل ، روس ، بھارت ، چین اور جنوبی افریقا پر مشتمل گروپ کی قیادت اسی ماہ سربراہ اجلاس کی تیاری کررہی ہے۔اس اقتصادی بلاک کا یہ سربراہ اجلاس جنوبی افریقا میں 22 سے 24 اگست تک ہوگا۔گروپ کی توسیع کے علاوہ ایجنڈے کے اہم موضوعات میں برکس ممالک کے درمیان مقامی کرنسیوں میں تجارت کا فروغ اور امریکی ڈالر پر انحصار کو کم کرنے پر اصرار شامل ہیں۔یہ بلاک ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے امریکی ڈالر پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، لیکن عالمی تجارت اور مالیات میں امریکی ڈالر کے غلبے کو کم کرنے کے لیے ’’ڈی ڈالرائزیشن‘‘ کے خیال نے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔اس جنگ کے نتیجے میں امریکا نے ماسکو پر بھاری مالی پابندیاں عاید کی ہیں۔امریکا نے روس کے قریباً 300 ارب ڈالر کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر منجمد کرلیے ہیں اور روسی بینکوں کو عالمی مالیاتی نظام سوئفٹ سے ہٹا دیا ہے۔یہ بین الاقوامی ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرنے والا عالمی پیغام رسانی کا نظام ہے۔برکس ممالک کا ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مطالعہ کرنے والی اسکالر میہیلا پاپا نے’داکنورسیشن‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا ہے کہ امریکا میں ’’بڑھتی ہوئی شرح سود‘‘ اور "قرض کی حد کے حالیہ بحران” نے دیگر ممالک میں ڈالر پر مبنی قرضوں کے بارے میں تشویش پیدا کردی ہے۔ٹفٹس یونیورسٹی کے فلیچر اسکول کی سینیر فیلو پاپا نے العربیہ کو بتایا:’’برکس ممالک ڈالر پر اپنا انحصار کم کرنے کے عمل کو تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اگرچہ روس ہمیشہ پابندیوں سے متعلق خطرات کی وجہ سے ڈالر کو کم کرنے کے لیے پرعزم رہا ہے، لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے ممالک ، خاص طور پر برازیل ،اس ایجنڈے پر کام کرنے کے بارے میں زیادہ آواز اٹھا رہے ہیں‘‘۔ڈی ڈالرائزیشن کی جانب پیش قدمی زور پکڑ رہی ہے، لیکن آنے والے مختلف معاشی اور سیاسی چیلنجوں کو دیکھتے ہوئے یہ نہ تو آسان ہے اور نہ ہی اس پر فوری عمل درآمد ممکن ہے۔ مثال کے طور پر، بین الاقوامی تجارت کا 80 فی صد سے زیادہ امریکی ڈالر میں کیا جاتا ہے اور یہ عالمی زرمبادلہ کے ذخائر کا 58 فی صد ہے۔ڈالر کی بالادستی کے باوجود، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ تجارت کے لیے ایک نئی برکس کرنسی کے استعمال کا تصور کرنا حقیقت پسندانہ ہے۔وائٹ ہاؤس کے ایک سابق ماہر اقتصادیات جو سلیوان نے العربیہ انگریزی کو بتایا:’’اس مرتبہ یہ (ڈی ڈالرائزیشن) تحریک کام کر سکتی ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے (برکس) حقیقی کرنسی کے لیے عزائم کم ہو گئے ہیں۔یورو جیسی مشترکہ کرنسی کے بارے میں اب یہ تصور نہیں ہے، بلکہ وہ بین الاقوامی تجارت میں کرنسی کے استعمال پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ ایک سنجیدہ قابل عمل امکان ہے۔سلیوان نے خارجہ پالیسی کے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ برکس ممالک میں سے ہر ایک اپنے خطے میں "اقتصادی ہیوی ویٹ” ہے اور اس وجہ سے وہ اپنے درآمدی بلوں کی پوری رقم خود ہی فراہم کرسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بلاک کے ممالک مجموعی طور پر اپنی درآمد سے زیادہ برآمد کرتے ہیں۔انھیں سامان درآمد کرنے کے لیے امریکا یا یورپی یونین جیسے غیر برکس ممالک سے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
سلیوان کے مطابق اس گروپ کو جغرافیائی برتری بھی حاصل ہے۔ برکس کرنسی یونین مختلف مقامات والے ممالک میں شامل ہوگی، جو انھیں دیگر موجودہ یونینوں کے مقابلے میں وسیع پیمانے پر سامان تیار کرنے کے قابل بنائے گی، جس سے مختلف ممالک کے ساتھ مزید تجارتی مواقع پیدا ہوں گے۔قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اگر نئی برکس کرنسی حقیقت بن جاتی ہے تو اس سے امریکا کی جانب سے محصولات جیسی تجارتی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ اس طرح کی پابندیوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔سلیوان نے وضاحت کی کہ اگر امریکا چین کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا بائیکاٹ کرتا ہے تو بیجنگ اب بھی اپنی مصنوعات کو پہلے تھائی لینڈ یا ویت نام جیسے تیسرے ملک کو برآمد کرکے امریکی منڈیوں میں فروخت کر سکتا ہے۔یہ ممالک پھر یہ چینی سامان امریکا کو برآمد کردیں گے۔برکس ممالک کے اندر پیچیدہ سیاسی اور اقتصادی حرکیات کے ساتھ ساتھ نئی کرنسی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک جدید اور قابل اعتماد نظام کی تشکیل میں مشکلات ہوں گے جس کے پیش نظر برکس کے درمیان ایک کرنسی بنانے پر اتفاق مشکل ہوگا۔