ؒؒلاہور(نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پی آئی اے پر 742ارب روپے کا قرضہ ہے ، موجودہ حالات میں کوئی جہاز لیز پر دینے کے لئے تیار نہیں بلکہ جو جہاز ہمارے پاس موجود ہیں وہ بھی واپس مانگے جارہے ہیں،دنیا کی ائیر لائنز کا مقابلہ نہیں کر پارہے ، اگر پی آئی اے کو چلانا ہے تو اس میں پرائیویٹ سیکٹر کو لانا ہوگا ،ریلوے کو نفرت کی بنیاد پر رول بیک نہ کیا جاتا تو آج ریلوے کی کچھ اور صورت ہوتی ،ریلوے کا ایم ایل ون سے مستقبل ہے ،اگر پروڈکشن یونٹ کو پرائیویٹ سیکٹر میں نہیں لے جائیں گے تو یہ ادارہ دم توڑ جائے گا، غریب قوم ہیں اتنا قرضہ لیں جتنا واپس کر سکیں، ایم ایل ون ترجیح ہے اکتوبر میں بی آر آئی کانفرنس میں معاہدہ ہوگا،چینی صدر کی موجودگی میں ایم ایل ون معاہدے پر دستخط کریں گے، ایم ایل ون کے چار پیکج کے دو فیز ہوں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے ریلوے اور ہوائی بازی کے محکموں کی کارکردگی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سول ایوی ایشن اور پاکستان ریلوے کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا ریلوے کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ،چودہ ماہ فائر فائٹنگ میں گزرے ہیں، حکومت سے ایک پیسہ لئے بغیر کام کیا، ریلوے مالی مشکل کا شکار ہے ،تنخواہ اور پنشن ریلوے خود ادا کرتا ہے ،ایم ایل ون کے چار پیکج کے دو فیز ہوں گے ،کراچی سے روہڑی اہم ہوگا، جہاں آبادی زیادہ ہو گی وہاں فینسنگ کریں گے ،ٹرین کی رفتار 140سے 160 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوگی، ازبکستان سے افغانستان تک لائن بچھا دی گئی ہے جسے پاکستان لانا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ گوادر میں چار سو ایکٹر اراضی ایکوائر کی ہے جہاں ٹرمینل ،ریلوے اسٹیشن بنے گا ، ہم اپنے گزشتہ دور حکومت میں بسینہ سے گوادر تک الائنمنٹ کر گئے تھے، اگلے بجٹ میں اس کے لئے فنڈز آنے چاہئیں ،کوئٹہ زیدان سیکشن کی بہت بری حالت ہے ،یہ ٹریک ریت پر بچھا ہوا ہے اور یہاں ہم مال گاڑی چلاتے ہیں ،989کلو ٹریکٹ کو ری ہیبلی ٹیٹ کرنا پڑے گا ، ریلوے میں بہت کام ہونے والا ہے ۔ انہوںنے بتایا کہ مغلپورہ میں جدید الیکٹرک فرنس مشین کا افتتاح کر دیا گیا ہے ،یہاں ضیاع زیادہ ہوتا تھا جبکہ کام نہ ہونے کے برابر تھا ،اسے چائنیز نے انسٹال کیا ےہ ، یہاں پر 800مزدور کام کر رہے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ ریلوے کیرج فیکٹری اسلام آباد کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ موڈ پر لے کر جائیں گے ، اس سے کوئی بیروزگار نہیں ہوگا ، جو مصنوعات مارکیٹ میں 10روپے مل رہی ہے وہ آپ پندرہ روپے میں بنا رہے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے ،اس میں پرائیویٹ سرمایہ کاری لانی ہے اور کیرج فیکٹری اس کی پہلی مثال ہو گی جسے ہم نے راستے پر ڈال دیا ہے اور اگلی حکومت کا کام ہے کہ وہ اسے لے کر چلے ، ایک ایک یونٹ میں پرائیویٹ سرمایہ کاری لائیں، وہاں کوچز بن رہی ہوں ،ٹرکس بن رہی ہوں ، باقی پارٹس بنیں ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پاکستان کے ائیر پورٹس بسوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں جو کوئی باہر سے آتا ہے وہاں ائیر پورٹ پر ہی فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ہم کیسی قوم ہیں ، بھارت اپنے چھ سے سات ائیر پورٹس کو آﺅٹ سورس کر چکا ہے ،امریکہ کے اکثر ائیر پورٹس آﺅٹ سورس ہیں ، اس کا مطلب بیچنا یا گروی رکھنا نہیں ، یہ نجکاری بھی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بہتر آپریٹرز کو لانا ہے اور یہ ایک محدود مدت کیلئے ہوتا ہے ، آپریٹرز اپنے ساتھ سرمایہ کاری بھی لاتے ہیں ، پہلے مرحلے کے لئے اسلام آباد ائیر پورٹ کو چنا گیا ہے ، ورلڈ بینک کا ذیلی ادارہ نیشنل فنانس کارپوریشن ہمارا کسنسلٹنٹ ہے ، اسی ماہ اشتہار دیدیا جائے گا اور بڈنگ کے ذریعے ائیر پورٹ کو آﺅٹ سورس کیا جائے گا، کچھ دوست ممالک بھی اس کے لئے خواہشمند تھے اور ہمیں جی ٹو جی کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن ہم نے اسے نہیں مانا کیونکہ ہمارے پاس کوئی بنچ مارک ہی موجود نہیں ہے ،ہمارے کچھ اپنے بھی قومی مفادات ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس سال کے آخر تک یا نئے سال کے آغاز میں بہتر آپریٹرآ گیا ہووگا، گارنٹی ہے کہ کوئی ملازم بیروزگار نہیں ہوگا البتہ ملازمین کی ایک سے دوسری جگہ شفٹنگ ہو سکتی ہے ، اسلام آباد ائیر پورٹ کو پندرہ سال کے لئے دیا جائے گا اور اس کے بعد یہ ہمارے پاس اپس آ جائے گا،اس اقدام سے ائیر پورٹ کی اپنی ویلیو بھی بڑھ جائے گی ، اگلے مرحلے میں لاہور اور کراچی کے ائیر پورٹس کی باری آئے گی ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہمارا پی آئی اے میں گزشتہ چھ سے آٹھ ماہ میں بڑا زور لگا ہے ، ہماری کوشش تھی کہ کسی طرح پی آئی اے کو ایاٹا کے بزنس ماڈل کے مطابق چلا لیں لیکن اس میں تین چار رکاوٹیں آ گئیں، ایک صاحب کے بیان سے پی آئی اے کو صرف یو کے کے روٹس پر آمدن کی مد میں سالانہ 70ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ، اس میں امریکہ کا روٹ شامل نہیں ہے ۔ان روٹس پر فلائٹس کی بحالی کے لئے ہمارے پسینے نکل گئے ہیں اور اب پیشرفت ہوئی ہے ، ہم نے اس سے متعلقہ قانون سازی مکمل کر لی ہے اور امید ہے کہ نومبر تک یو کے کی فلائٹس بحال ہوں گی اور اگلے مرحلے میں امریکہ کی بحال ہو ں گی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام پی آئی اے کو وقتی فائدہ دے سکتا ہے لیکن ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے،آپ ائیر انڈیا کو سرچ کریں ، یہ ائیر لائن بند ہونے کے قریب تھی کہ اسے ٹاٹا گروپ کے حوالے کر دیا گیا ، اس نے کام کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ائیر کرافٹس کا آرڈر کھول دیا اور آنے والے چند سالوں میں ائیر انڈیا ٹاپ کی ائیر لائن ہو گی ، ساﺅتھ افریقہ کی ائیر لائن ڈوب گئی تھی انہوں نے پرائیویٹائزیشن کا راستہ اختیار کیا ، ہمارا راستہ بھی یہی ہے ،سینیٹ مین قانون سازی ہورہی ہے، پی آئی اے کی ہولڈنگ کمپنی بنے گی۔