لاہور/اسلام آباد( نمائندہ خصوصی )سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو توشہ خانہ مقدمے میں سزا پانے کے بعد اٹک جیل منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں پی ٹی آئی کے مطابق ان کے قانونی مشیروں کو ملاقات کی سہولت فراہم نہیں کی جا رہی۔عمران خان کی لیگل ٹیم کے رکن ایڈوکیٹ انتظار حسین پنجوتھا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اب تک لیگل ٹیم کو عمران خان تک رسائی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے وکالت نامے پر چیئرمین پی ٹی آئی کے دستخط نہیں ہو سکے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہم کل سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان تک رسائی ملے تاکہ پاور آف اٹارنی پر دستخط کروائے جاسکیں۔ بنیادی طور جب آپ جیل میں ہوں تو آپ پاور آف اٹاری (وکالت نامے) پر دستخط کرتے ہیں تاکہ آپ کی اپیل دائر کی جاسکے لیکن اس پر جس جیل میں ہوں اس کی انتظامیہ کی جانب سے مہر لگتی ہے ورنہ وہ (وکالت نامہ) عدالت کو قابل قبول نہیں ہوتا۔‘ان کا کہنا تھا کہا اگر ہمیں عمران خان تک رسائی نہیں دی جاتی تو بھی ہم پیر کو اس اعتراض کے ساتھ اپیل فائل کریں گے کہ ہمیں ان تک رسائی نہیں دی گئی۔’یہ ہمارا حق ہے اور دنیا میں کہیں اس حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاتا۔‘نعیم حیدر پنجوتھا نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’اٹک جیل (عمران خان کی) قانونی ٹیم کے علاوہ آس پاس کے مقامی رہائشیوں کے لیے ایک ’نو گو‘ علاقہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ عمران خان کے لیے کھانا لے جانے یا قانونی دستاویزات پر دستخط کا بندوبست کرنے سے قاصر ہیں۔پاکستان کی وفاقی وزیر اطلاعات نے عمران خان کی وکلا تک رسائی پر تبصرہ کرنے کی درخواست پنجاب کے صوبائی حکام تک ارسال کی۔تبصرے کے لیے پنجاب کے اعلیٰ معلوماتی اہلکار سے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔ایڈوکیٹ انتظار حسین پنجوتھا نے بتایا: ’واحد طریقہ یہی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں سنائی گئی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے اور اس کے ساتھ عدالت سے سزا کو اپیل پر فیصلہ آنے تک سزا کو معطل کرنے کی استدعا کی جائے۔
’اگر عدالت اس فیصلے کی معطلی کے احکامات جاری کرتی ہے تو عمران خان اپیل کے فیصلے یا عدالت کی طرف سے دی گئی معینہ مدت تک رہا ہو جائیں گے۔‘انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ عمران خان کی اپیل کو اسی ہفتے سنے گی۔اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین سال کی سزا ایک کم سزا ہے، اس لیے عام طور پر کم سزا کو اپیل کے نتیجے میں آخری فیصلہ آنے سے قبل ہی معطل کر دیا جاتا ہے۔ ’اپیل کے فیصلے تک انتظار کی صورت میں سماعتوں میں دو تین سال تو لگ ہی جاتے ہیں اور سزا ویسے ہی پوری ہو جاتی ہے۔ اس لیے قوی امکان ہوتا ہے کہ سیشن کورٹ کے سزا والے فیصلے کو معطل کر دیا جائے۔‘انہوں نے کہا: ’یہاں پر اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف دوسرے کیس بھی موجود ہیں، جن میں وہ آٹھ سے 15 اگست تک عبوری ضمانت پر ہیں اور اگر ان مقدمات میں ضمانت کی توسیع نہیں کی جاتی تو حکومت ان میں سے کسی بھی کیس میں ان کی گرفتاری ڈال سکتی ہے، جس کی وجہ سے عمران خان کی رہائی میں مشکل آسکتی ہے۔‘
ایڈوکیٹ انتظار حسین پنجوتھا کے خیال میں تاخیری حربے کا امکان موجود ہے، کیونکہ انہیں نہیں بتایا جا رہا کہ عمران خان کہاں ہیں۔ ’بس فون پر بتا دیا جاتا ہے کہ وہ ٹھیک ہیں، ان کی ضرورت کی چیزیں انہیں دے دی گئی ہیں، لیکن ظاہر ہے ان کی باتوں پر یقین تو نہیں کیا جا سکتا۔’ اس کے علاوہ ہماری قانونی ضرورت اس وقت ان کو باہر لانا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے پاور آف اٹارنی۔‘انہوں نے کہا عمران خان کے قانونی مشیروں کو ان سے ملنے کی اجازت نہ ملنے کی صورت میں اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کر کے وہاں سے اجازت حاصل کرنا پڑے گی۔ایڈوکیٹ احمر مجید اس ساری صورت حال کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اکثر جیل انتظامیہ وکالت نامے پر دستخط کروانے میں تاخیری حربے استعمال کرتی ہے۔ ’لیکن اگر ٹھوس وجوہات کی بنا پر کچھ کاغذات موجود نہ ہونے کی صورت میں جج اعتراضات کے باوجود کیس کو قابل سماعت قرار دے سکتا ہے۔‘تاہم انہوں نے کہا کہ عمران خان کے مقدمے میں سیاسی ٹمپریچر عروج پر ہے اس لیے جج بھی ایسے مقدمات میں محتاط رہتے ہیں۔’اگر وکالت نامہ عمران خان کے دستخط کے بغیر قبول کر لیا جائے اور کل کو عمران خان کہیں کہ جس وکیل نے ان کی نمائندگی کی وہ ان کا وکیل ہی نہیں ہے تو عدالت پر سوال اٹھے گا۔‘ان کا مزید کہنا تھا: ’عمران خان جیل میں ہیں اور جن مقدمات میں ان کو عبوری ضمانت ملی ہے ان میں عدالت کو بتایا جائے گا کہ یہ بندہ تو پہلے ہی جیل میں ہے جس کے بعد ان کیسسز کی کارروائی آگے بڑھے گی جس میں گواہان کو طلب کیا جائے گا اور عمران خان کے بیانات بھی ریکارڈ ہوں گے کیونکہ ہر ضمانت ایک مخصوص کیس کے لیے ہوتی ہے اس کا اطلاق کسی دوسرے کیس پر نہیں ہوتا۔‘ان کا کہنا تھا: ’چونکہ عمران خان کی سزا کم ہے اس لیے ایسے کیسسز میں اعلیٰ عدالتیں اس سزا کو عام طور پر معطل کر دیتی ہیں اور عمران خان کے کیس میں کچھ شہادتیں ریکارڈ نہیں کی گئیں جو ان کی سزا کی معطلی کی درخواست کے لیے ایک اہم نقطہ ثابت ہو سکتا ہے جس کی بنا پر ہائی کورٹ ان کی سزا کو معطل کر سکتی ہے۔‘