لاہور( خصوصی رپورٹ:نواز طاہر)پیشگوئی کے برعکس لاہور میں بارش نہیں ہوئی اور بارش سے پہلے ہلکا حبس اور اسی فیصد نمی کے ساتھ ہوا چل رہی تھی اور مساجد سے ظہر کی ازانیں پی ٹی آئی کے گانوں اور ترانوں کے شور کی مزاحمت کے بغیر صاف سنائی دے رہی تھیں جب پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین کیلئے موٹروے پر سرکاری گاڑیوں نے فراٹے بھرنے شروع کردیے تھے اور پیچھے گھر میں مکمل خاموشی تھی ، صرف پولیس کچھ صحافی اور اڑتے پرندوں کی آوزیں آرہیں تھیں ، عمران خان کی ان کی گرفتاری کے بعد احتجاج کی کال پر ابھی کسی نے لبیک نہیں کہا تھا ۔ گرفتاری کے نصف گھنٹے کے بعد عمران خان کے حق میں پہلا نعرہ انصاف لائرز فورم کے اس دستے نے بلند کیا جس میں دس سے گیارہ وکلاءشامل تھے اور گرفتاری کے بعد خان کے گھر میں داخل ہونےوالا یہ پہلا قافلہ تھا ۔ اسی قافلے کیلئے پی ٹی آئی چیئرمین کے گھر کادروزہ کھولنے پر صحافی بھی داخل ہوئے ، داخلی دروازے کے سامنے پی ٹی آئی کے چیئرمین کے استعمال میں رہنے والی بلا نمبری کالی لگژری گاڑی کھڑی تھی اور ان کے ذاتی محافظ ایک سے زائد زبانوں میں اپنے ساتھیوں سے گفتگو کررہے تھے پشتو زبان میں بتا رہے کہ کہ جب تک پی ٹی آئی کے ذمہ داران کی طرف سے کوئی بات نہ بتائی جائے تب تک صحافیوں کے سامنے کوئی بیان دینے سے گریز کیا جائے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ جان پہچان والوں کو پشتو سمیت مختلف زبانوں میں معلومات بھی فراہم کررہے تھے اور افسردہ تھے۔ یہ افسردگی ، بے چارگی اور بے بسی اس سے پہلے دکھائی نہیں دیتی تھی بلکہ تین ماہ پہلے تک انہی محافظوں سے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما بھی بے باکی سے بات کرتے خوف محسوس کرتے دکھائی دیتے تھے اور وہی زمان پارک کے راجے تھے لیکن اس وقت زمان پارک میں چیئرمین پی ٹی آئی کا نام صحافیوں اور ڈیوٹی پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں کے ماسوا کوئی نہیں لے رہا تھا ۔ یہ سوا ایک بجے سے ایک بج کر پینتیس منٹ کا دورانیہ تھا اور زمان پارک کے باہر کینال روڈ پر صرف گذرتی گاڑیوں کا شور تھا ، جیسے ایک بجے سے چند منٹ پہلے تھا ، ایک بجے کینال روڈ پر دس منٹ کیلئے ٹریفک روک کر چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کیا گیا ، ذرائع کے مطابق ساڑھے بارہ بجے تک چیئرمین پی ٹی آئی کے گھر کے اطراف کے راستے بھی بند تھے لیکن اسی گلی میں جاری خواتین کی مذہبی مجلس میں شرکت کیلئے جانےوالوں کو نہیں روکا گیا تھا ۔دس سے بارہ منٹ کے گرفتاری آپریشن کے بعد پولیس اور میڈیاکے ماسوا ایک وٹر سائیکل پر ایک خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ وہاں پہنچی تو میڈیا اورپولیس اہلکار اس جانب لپکے تو معلوم ہوا کہ وہ بھی مذہبی مجلس میں شرکت کے لئے آئے ہیں لیکن اب راستہ بند ہے ابھی ان کیلئے راستہ کھولا نہیں گیاتھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے ہمسائے بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کے معاون آفتاب عالم بھی پہنچ گئے تاہم انہوں نے بھی راستہ کھولنے پر اصرار نہیں کیا اور میڈیا کارکنوں کے ساتھ گفتگو میں شریک ہوگئے ۔ اس وقت تک پی ٹی آئی کے چیئرمین کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کیے جانے کی اطلاعات چل رہی تھیں جبکہ انہیں اسلام آباد منتقل کرنے والی گاڑی موٹروے پر چڑھ چکی تھی اور پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود کی طرف سے احتجاج کی باقاعدہ کال دی جاچکی تھی مگر زمان پارک میں احتجاج کرنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا بلکہ رپورٹرز پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے لمحات باہم شیئر کرہے تھے۔ اور یہ بحث جاری تھی کہ گرفتاری کے وقت چیرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ گھر میں موجود تھیں یا نہیں ، بحث ایک ملازم کی تصدیق کے بعد ختم ہوئی کی بشریٰ بی بی گھر پر موجود تھیں اور عمران خان نے اپنی گرفتار ی کے لمحات قریب آنے کے باے میں آگاہ کیا تھا جنہیں گھر کے سیکیورٹی اسٹاف نے آگاہ کیا تھا کہ پولس کی بڑی گاڑیاں اور کچھ نفری پہنچ چکی ہے ،۔
ڈی آئی جی آپریشن کی قیادت میں پولیس عمران خان کے گھر میں داخل ہوچکی تھی اور کوئی کارکن موجود نہ ہونے کے باعث کسی احتجاج اور مذاحمت کے بغیر چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالتی فیصلے کی روشنی میں گرفتار کرکے سرکاری گاڑی میں بٹھا لیا گیا ، ان کے گھریلو ملازمین کے مطابق چیئرمینپی ٹی آئی کو کپڑے تبدیلکرنے کی مہلت نہیں لی جبکہ پولیس ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے وقت انکی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ان کے ساتھ لپٹنے ، چھڑانے ،اور مزاحمت کی کوشش کی تھی جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین صاف ستھرے لباس میں تھے اور کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں تھی نہ ہی انہوںنے کپڑے تبدیل کرنے کیلئے وقت مانگا تھا ، بعد میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے عدالتی فیصلے کے اعلان سے پہلے ہی اپنا ویڈیو پیغام ریکارڈ کروادیا تھا کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور پی ٹی آئی کارکنان گھروں میں نہ بیٹھے رہیں بلکہ ملک گیر احتجاج کریں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے ایک سے دو گھنٹے کے دوران انصاف لائرز فورم کے اس قافلے میں شامل پی ایل ایف کے رہنما عمیر نیازی نے بتایا کہ چیئرمین کی گرفتاری کے خلاف عدالت میں حبسِ بے جا کی درخواست دائر کی جارہی ہے ، ان وکلاءنے گھر کے اندر ہی احتجاج کا آغاز کیا ،اس کے علاوہ دس سے بارہ کارکنوں کا ایک دستہ پہنچا پی ٹی آئی کا جھنڈا تھامے زمان پارک پہنچا جبکہ اس وقت پولیس کی بہت سی نفری جاچکی تھی ، اس دستے کے پہنچنے اور نعرہ بازی پر پولیس نے نصف گھنتے تک کوئی ایکشن نہیں لیا جبکہ اسی دوران زمان پارک کے اندر سے ہی پشتو بولنے والے چار پانچ ڈنڈاا بردار کارکن بھی نکل آئے تھے جنہوں نے اپنے قائد کے حق اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل نعرہ بازی کی تو پولیس نے ایکشن کیا اور دس کارکنوں کو حراست میں لے لیا جبکہ جبکہ باقی پولیس کی نفری جمع ہونے اور گرفتاری کا ایکشن دیکھتے ہی روپوش ہوگئے جن کا پولیس نے
بھی پیچھا نہیں کیا ۔۔ عصر تک زمان پارک میں نہ توکوئی نعرہ لگانےوالا دکھائی دے رہا تھا اور نہیں تین ماہ پہلے جیسی گانوں اور ترانوں کی کوئی آواز سنائی دے رہی تھی البتہ زمان پارک کی گول گراﺅنڈ میں بچے کھیلنے کیلئے جمع ہورہے تھے ۔
دریں اثنا پنجاب کے مختلف علاقوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کسی بڑے شہر میں کوئی قابلِ ذکر احتجاج نہیں کیا گیا البتہ پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کہ ملک گیر احتجاج جاری ہے ۔
ایک جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے تودوسری جانب مسلم لیگ ن کیجانب سے مٹھائیاں تقسیم کی جارہی ہیں اورکہا جارہا ہے کہ عدالت نے عمران نیازی کی بے ایمانی ، جھوٹ اور کرپشن پر مہر ثبت کر دی عدالتی فیصلہ حق اور سچ کا فیصلہ ہے اس سے جھوٹے سادھو کا چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے ،جو چور تھا آج پکڑا گیا ،مخالفین پر بہتان تراشی، جھوٹے کیسز اور گالم گلوچ کرنیوالا اپنے انجام کو پہنچ گیا، اللہ نے تکبر کا سر نیچا کرتے ہوئے سچ آشکار کر دیا ہے۔