کراچی کے پاکستانی سیاست دانوں میں مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد وہ منفرد اور محبوب شخصیت ہیں جن سے مل کر ہمیشہ دل جوئی ہوتی ہے- ان کی مہمان نوازی کا کوئی بدل نہیں، ان کے دسترخوان پر نہ تو کوئی سیاسی تڑکا لگتا ہے اور نہ ہی ان کی پلائی ہوئی چائے کی پیالی پر کوئی طوفان اٹھتا ہے- آفاق احمد بڑی معصومیت اور سادگی سے سب کی سنتے ہیں اور باتوں ہی باتوں میں کھل کر اتنا کچھ کہہ جاتے ہیں کہ ہمیں ملک کے معروضی حالات میں سیاسی منظر نامہ کی تہہ تک پہنچنے میں مدد مل ہی جاتی ہے- ان کی شخصیت میں بے پناہ سحر ہے، وہ لگی لپٹی باتیں نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں روایتی سیاست دانوں جیسی مکالمہ آرائی کا ہنر آتا ہے لیکن ان کی پر کاری سے پاک گفتگو بھی فکر فردا کے کئی در وا کر دیتی ہے- وہ سیاست میں سودے بازی اور سود و زیاں کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی کبھی انہوں نے اپنے نظریئے کی قیمت لگائی ہے- انہوں نے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر اسی کی دہائی میں اردو بولنے والے طبقے کی محرومیوں کے ازالہ کی خاطر مہاجر سیاست کی داغ بیل ڈالی، اس جدوجہد میں ان کے کئی رفقاء قومی دھارے میں بہہ کر ارب پتی ہو گئے، بہت سوں کو دیار غیر کی آسودگی راس آ گئی، درجنوں درجہ شہادت پر فائز ہو گئے اور بیسیوں جڑواں شہروں کی سند قبولیت کی تڑپ میں کبھی سندھی اور کبھی مہاجر کا راگ الاپتے الاپتے سیاسی وینٹی لیٹر پر پہنچ چکے ہیں، ہمارا محبوب نظر آفاق احمد "زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد” کے مصداق چالیس برس بعد بھی ابھی تک "مہاجر چوک” پر کھڑا اس محبوبہ کا انتظار کر رہا ہے جس نے مدت ہوئی اپنا تن، من سب کچھ پاکستانی اشرافیہ کو سونپ دیا ہے- اس ساری گھمسان کے باوجود آفاق احمد اپنے خواب، تعبیر سے کم کسی ارزاں قیمت پر قربان کر دینے کے لیئے کسی طور آمادہ نہیں ہے- اسی استقامت میں کھڑے کھڑے ان کے بالوں میں سفیدی آ گئی ہے- یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان نے مفادات اور لوٹ کھسوٹ کی سیاست میں آفاق احمد جیسا ایک نڈر اور بلند قامت قومی رہنما کھو دیا ہے-
میں آفاق احمد بھائی کو ان کی سادگی، صاف گوئی اور بہادری کی وجہ سے ہمیشہ برملا اپنا محبوب سیاست دان قرار دیتا ہوں اور ان سے بغیر مصلحت کے سیاست کے ہر پہلو پر آزادانہ تبالہ خیال کرتا ہوں- ان سے تعلق خاطر کو تیس برس ہو گئے، ہم جب بھی ملتے ہیں، بہ وقت رخصت ہماری دوبارہ ملنے کی خواہش سوا ہو جاتی ہے- آفاق احمد کی رہائش گاہ پر گزشتہ چند برسوں سے دو روایتیں پختہ ہوتی چلی جا رہی ہیں، ایک تو وہ سال میں ایک بار صحافی حضرات کے لیئے پر تکلف ظہرانے کا اہتمام کرتے ہیں جہاں یاروں دل داروں کو مل بیٹھنے اور باہم گپ شپ کا شان دار موقع مل جاتا ہے- دوسرا وہ محرم الحرام کے پہلے عشرے میں کسی روز صحافی دوستوں کے لیئے "نیاز حسین حلیم” کی دعوت رکھتے ہیں جہاں آفاق احمد سے محبت کرنے والے صحافیوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے- میں ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں کہ جنہیں ان دونوں روایتوں کا مستقل حصہ ہونے کا شرف حاصل ہے- ان کی جماعت کے ساتھیوں کا اشتیاق بہ سر و چشم، آفاق بھائی ہمیشہ خود بھی فون کرتے ہیں اور بے پایاں محبت سے بلاتے ہیں تو ہم بھی ہر بار ان کے ہاں کھچے چلے جاتے ہیں، بھائی کے بلاوے کا کوئی اعتذار نہیں ہے- آفاق بھائی سے ہماری محبتوں کا کوئی شمار نہیں-
اس بار بھی منگل 25 جولائی 2023ء کو ڈیفنس میں آفاق احمد بھائی کی رہائش گاہ پر نماز عصر سے مغرب تک "دعوت حلیم” تھی- میں کارساز سے ڈیفنس ذرا سی تاخیر سے پہنچا تو دیکھا باہر لان میں جمشید گل بخاری صحافی دوستوں میں گھرے ہوئے ہیں اور اندر مہمان خانہ بھی یاروں دل داروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے، سب کا مرکز نگاہ آفاق احمد بھائی تھے- وہ حسب روایت کاٹن کے سفید جوڑے میں ملبوس تھے- آفاق بھائی کی کابینہ خندہ پیشانی سے مہمان نوازی میں مصروف تھی، بھائی خود بھی بڑھ بڑھ کر مہمانوں کا سواگت اور ان کی خیریت دریافت کرتے رہے- مقصود یوسفی صاحب، پریس کلب کے سیکرٹری شعیب خان، ارمان صابر، رفعت سعید، امتیاز خان فاران، مختیار عاقل، جی ایم جمالی، ڈاکٹر جبار خٹک، صابر علی بھائی، طاہر حسن خان، زاہد مظہر، شعیب برنی، علائوالدین خانزادہ، سعید پاشا، جاوید اقبال، نیاز کھوکھر، ریاض عاجز، محمد عظیم، چاند نواب، اختر شاہین رند، لیاقت مغل، جاوید قریشی، سعید قریشی، مدثر عالم، شاہد غزالی، رائو عمران، سید اطہر حسین ہاشمی، نومنتخب صدر اور سیکرٹری "پیپ” جمیل احمد، نعمان نظامی، ابوالحسن، محمد ناصر بھائی، بہزاد خان اس دعوت میں آخری وقت تک موجود رہے-
چائے کی پیالی پر ایک طویل نشست آفاق احمد بھائی کے "اسٹڈی روم” کے آرام دہ صوفوں کی آغوش میں دبک کر بھی ہوئی- طاقت ور اشرافیہ، مظلوم عوام، ناکام معیشت، خود غرض عدلیہ اور پالتو پارلیمان کے بوجھ تلے دبی سسکتی ریاست کا مستقبل کیا ہو گا؟ ڈاکٹر جبار خٹک، جی ایم جمالی، امتیاز خان فاران، مختیار عاقل، رفعت سعید، صابر علی بھائی، کامران جیلانی بھائی اور راقم فکر فردا میں مبتلا ہیں، بہت ہی محتاط گفتگو، ایک دوسرے سے سہمے ہوئے لوگ لیکن آفاق احمد بھائی حسب روایت بے خوفی سے مہاجروں کا مقدمہ پیش کرتے رہے- آفاق احمد ضدی ہے، مستقل مزاج ہے یا مہاجروں کا وفادار، اس کا فیصلہ تاریخ کو کرنے دیجئے، آیئے ہم اپنے اپنے دفتروں اور گھروں کو لوٹتے ہیں-