نیو دہلی(نیوز ڈیسک/ نیٹ نیوز )بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے گزشتہ ہفتے پارلیمان میں پیش کردہ اس رپورٹ نے خواتین کے حوالے سے تشویش ناک صورت حال کو اجاگر کیا ہے۔ ملک میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(این سی آر بی) کے فراہم کردہ اعدادو شمار کی بنیاد پر وزارت داخلہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ سال 2019 ء سے 2021 ء کے درمیان بھارت میں 13.13 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین لاپتہ ہوگئیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے زیادہ عمر کی لاپتہ ہونے والی خواتین کی تعداد 10 لاکھ 61 ہزار 648 تھی جب کہ 18سال سے کم عمر کی دو لاکھ 51 ہزار 430 لڑکیاں بھی لاپتہ ہوگئیں۔رپورٹ میں ملع گیر سطح پر لاپتہ ہونے والی خواتین کی تعداد بھی دی گئی ہے۔ اس کے مطابق سب سے زیادہ یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار ایک سو اسی خواتین مدھیہ پردیش سے لاپتہ ہوئیں۔ بی جے پی کی حکومت والی اس وسطی ریاست سے تین سال کے دوران 18سال سے کم عمر کی اڑتیس ہزار دو سو چونتیس لڑکیاں بھی لاپتہ ہو چکی ہیں رپورٹ کے مطابق ترنمول کانگریس کی حکومت والی ریاست مغربی بنگال دوسرے نمبر پر ہے۔ جہاں لاپتہ ہونے والی خواتین اور 18 برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی تعداد بالترتیب ایک لاکھ چھپن ہزار نو سو پانچ اور چھتیس ہزار چھ سو چھ تھی۔ اقتصادی لحاظ سے بہتر ریاست مہاراشٹر میں ایک لاکھ ستاسی ہزار چار سو خواتین اور 18برس سے کم عمر کی تیرہ ہزار تینتیس لڑکیاں لاپتہ ہوئیں۔جموں و کشمیر سے تقریباً دس ہزار عورتیں لاپتہ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر سے سال 2019 سے 2021 کے درمیان نو ہزار سات سو پینسٹھ خواتین لاپتہ ہو گئیں۔ ان میں 18 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کی تعداد آٹھ ہزار چھ سو سترہ اور 18برس سے کم عمرکی لڑکیوں کی تعدادایک ہزار ایک سو اڑتالیس تھی۔بہرحال مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے خواتین کے لاپتہ ہونے کے افسوس ناک واقعات کے لحاظ سے جموں و کشمیر دوسرے نمبر پر ہے، پہلے نمبر پر قومی دارالحکومت دہلی ہے۔ جہاں مذکورہ مدت کے دوران اکسٹھ ہزار چوون خواتین اور 18برس سے کم عمر کی بائیس ہزار نو سو انیس لڑکیاں لاپتہ ہو گئیں۔اوڈیشہ میں ستر ہزار دو سو بائیس خواتین اور سولہ ہزار چھ سو اننچاس لڑکیوں کے لاپتہ ہونے جب کہ قبائلی اکثریتی ریاست چھتیس گڑھ میں اننچاس ہزار ایک سو سولہ خواتین اور دس ہزار آٹھ سو سترہ لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹیں درج کرائی گئیں۔
این سی ای آر بی نے یہ تعداد لاپتہ ہوجانے والی خواتین اور لڑکیوں کے متعلق تھانوں میں درج کرائی گئی رپورٹوں کی بنیاد پر بتائی ہے۔ تاہم سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ بہت سے خاندان لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹیں متعدد اسباب کی بناپر درج نہیں کراتے، جن میں سماجی بدنامی بھی شامل ہے۔مرکزی وزارت داخلہ میں وزیر مملکت اجئے کمار مشرا کا کہنا ہے کہ حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ ان میں جنسی جرائم کو روکنے کے لیے سن دو ہزار تیرہ کا قانون شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کو مزید سخت اور موثر بنانے کے لیے سن دو ہزار اٹھارہ میں اس میں ترامیم کی گئیں۔ اور "اب 12سال سے کم عمر کی لڑکی کے ریپ کے مجرم کو موت کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔”اجئے کمار کا مزید کہنا تھا کہ ترمیمی قانون میں اب ریپ کے کیسز کی تیز رفتار تفتیش اور متاثرین کو جلد از جلد انصاف دلانے کے لیے اقدامات کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ پریشان حال خواتین کو فوری امداد فراہم کرنے کے لیے ملک گیر ایمرجنسی ریسپانس سسٹم بھی شروع کیا گیا ہے اور کوئی بھی خاتون 112نمبر ڈائل کرکے فوری مدد طلب کرسکتی ہے۔
مرکزی وزیر کے مطابق وزارت داخلہ نے جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا قومی ڈیٹا بیس بھی شائع کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے تمام دعوؤں کے باوجود بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تمام سیاسی جماعتوں کی اس مسئلے کے حوالے سے عدم دلچسپی بھی ہے۔ کسی بھی ریاست میں خواتین کے خلاف جرائم پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگتی ہیں لیکن وہ اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتیں