نان ننگ (شِنہوا) خوبصورت ژوانگ لوک گیت گاتے ہوئے،روایتی ثقافتی لباس میں ملبوس کسان کندھوں پر آموں سے بھری ٹوکریاں لئے پہاڑی راستے پر رواں دواں ہیں۔ آج کل چین میں آم کی پیداوار کے سب سے بڑا علاقے، گوانگشی ژوانگ خوداختیار علاقے کے بائیسے میں آم کی بھرپور فصل کے ایسے مناظر ہر روز دیکھے جاسکتے ہیں ۔
پاکستان سے آئے حافظ تنویر حمید اپنے سمارٹ فون سے ان مناظر کی عکس بندی کی اور ژوانگ میں سلام "بی-ننگ!” کہا۔
ژوانگ میں "بی-ننگ!”لفظ کا مطلب "بھائی” ہے۔ چینی کسان اپنے اس پاکستانی بھائی کے لیے اجنبی نہیں ہیں، اور انھوں نے بڑی چاہت سے اسے آم پیش کیے۔
حافظ تنویرحمید کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔ وہ 10 سال پہلے یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے چین آئے ۔ گریجویشن کے بعد اس کی ملاقات بائیسے کی ایک لڑکی سے ہوئی اور پھر ان کی شادی ہوگئی۔ یہ جوڑا کئی سالوں سے بائیسے میں آباد ہے اور ان کی دو پیاری سی بیٹیاں ہیں۔
حافظ تنویر حمید بائیسے میں پھنگگو کے ایک ووکیشنل اسکول میں انگریزی پڑھاتے ہیں۔ وہ چینی سوشل میڈیا پر بھی سرگرم ہیں اور چینی فالورز کی ایک بڑی تعدادکے ساتھ وہ ایک رائے دینے والےاہم لیڈر ہیں۔
ایک دوسرے ملک میں حافظ تنویر حمید کو آم سے خاص لگاؤ ہے، کیونکہ آم پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر اگایا جاتا ہے جو پاکستان کی اہم فصلوں میں سے ایک ہے۔ ایک بار جب بائیسے میں آم کی فصل پک کر تیارہوجاتی ہے تو شہر کی سڑکیں اور گلیاں آم کی خوشبو سے بھر جاتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ گھر میں میٹھے اور لذیذ آموں کی کمی محسوس کرتے ہیں۔
حافظ تنویر حمید کا کہنا ہے کہ آم کی فصل اتارنے کے دوران، بائیسے پاکستان میں میرے آبائی شہر سے کہیں زیادہ بھرپور دکھائی دیتا ہے جہاں ہر سال ‘مینگو فیسٹیول’ کا انعقاد کیا جاتا ہے، ملک بھر سے بہت سے تاجر خریداری کے لیے آتے ہیں، اوریہاں پیداوار اور مارکیٹنگ ڈاکنگ کی کارکردگی بہت بلند ہے۔
مینگو فیسٹیول کے حوالے سے حافظ تنویر حمید نے بتایا کہ یہ ایک سالانہ آم تھیم سرگرمی ہے جس کا اہتمام بائیسے حکومت کرتی ہے، جس کا مقصد آم کے برانڈز کے اثر و رسوخ کو بڑھانا اور آم کی صنعت اور متعلقہ سیاحت کو فروغ دینا ہے۔
گوآنگ شی بائیسے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں آم کی سب سے پہلےکاشت کی گئی، 1985 کے اوائل میں، معیشت کو بحال کرنے، غربت کے خاتمے اور دولت مندی کے لیے ایک آم کی کاشت ایک صنعت کی حیثیت رکھتی تھی۔ تقریباً 40 سال کی ترقی کے بعد، بائیسے میں آم کی صنعت نے خاطر خواہ ترقی حاصل کی ہے، آم کی اقسام تیزی سے پھیل رہی ہیں، پیداواری پیمانے، اضافہ، معیار، برانڈنگ کی سطح میں بہتری جاری ہے۔ 2022 میں، بائیسے میں 13لاکھ 68ہزار90ہزار مو رقبے پر آم کے باغات سے 4ارب 71کروڑ50لاکھ یوآن کی 10لاکھ 50ہزار ٹن پیداوارحاصل ہوئی تھی۔توقع ہے کہ 2023 میں بائیسے میں آم کی کل پیداوار12لاکھ 50ہزار ٹن تک پہنچ جائے گی۔
حالیہ دنوں میں، حافظ تنویر حمید اپنی بیٹی کو بائیسے میں مینگو فیسٹیول میں لے گئے۔ وہ روایتی ملبوسات پہنے کسانوں کے ایک گروپ کے بیچ کھڑے ہو گئے اور ژوانگ کے ساتھ نعرے لگائے، "بائیسےکے آم بیچنے کے لیے!”۔ بعد میں، انہوں نے شہر کی سب سے بڑی آم کی تجارتی منڈی کا دورہ کیا اور اپنے فون کے ذریعے آم کی تجارت کی عکس بندی کی۔
مارکیٹ پھلوں کی خوشبو سے بھری ہوئی تھی اور آموں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ مزدوروں نے تیزی سے آموں کی مختلف اقسام کو پیٹیوں میں بند کرکے ٹرکوں میں لاد کر چین کے دوسرے حصوں میں بھیج دیا۔ حافظ تنویر حمید نے کہا کہ لاجسٹکس کے ترقی یافتہ نظام کی بدولت یہاں کے آم بنیادی طور پر بیجنگ، شنگھائی، گوانگ ڈونگ اور چین کے دیگر حصوں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
مینگو فیسٹیول کا نہ صرف شہروں میں بلکہ دیہی باغات میں بھی تہوار جیسا ماحول ہوتا ہے۔پہاڑوں میں کچھ پھلوں کے کاشتکاروں نے آم اتارتے ہوئے ویڈیوز ریکارڈ کیں، جنہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا۔ بائیسے کی تیان ڈونگ کاؤنٹی میں، "نئے کسانوں” کے لیے لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے سامان فروخت کرنا بہت مقبول ہے۔
حافظ تنویر حمید نے کہا کہ چین میں کسان نہ صرف پھلوں کے درخت لگا سکتے ہیں، بلکہ نئے میڈیا کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں! سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے انہیں بہت زیادہ توجہ مل جاتی ہے، اور بہت سے صارفین آن لائن آرڈر دیتے ہیں اور بار بار سامان خریدتے ہیں۔ آم کا پھل آن لائن بہت مشہور ہے۔
بائیسے چین کے جنوب مغرب کے دور دراز علاقے میں واقع ہے، جہاں ایک وقت میں زرعی مصنوعات کی فروخت ایک مشکل مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ حافظ تنویر حمید نے دیکھا کہ کس طرح مقامی کسان انٹرنیٹ کے ذریعے پہاڑوں سے اپنی زرعی مصنوعات فروخت کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آسان لاجسٹکس اور قابل رسائی نیٹ ورک نے کسانوں کا بہت زیادہ بوجھ کم کر دیا ہے۔
حافظ تنویر حمید نے اپنے ایک پاکستانی دوست کے ساتھ ایک مختصر ویڈیو میں لوگوں کو سکھایا کہ ہاتھوں کو چپکے بغیر آم کیسے کھایا جاسکتا ہے۔۔ یہ ویڈیو پچھلے سال پوسٹ کی گئی تھی، اور حال ہی میں اس نے چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک بار پھر مقبولیت حاصل کی ہے۔
جس چیز نے حافظ تنویر حمید کو اور زیادہ خوشی دی ہے وہ یہ تھی کہ اس کے کچھ فالورز نے کمنٹس میں پاکستانی آموں میں دلچسپی ظاہر کی اور ان کے سوال تھے کہ "کیا آپ کے ملک کے آم میں فائبر کم ہے، اس لیے اسے چوسنا آسان ہے؟” "کیا ایسا آم ہے جسے آپ چوس سکتے ہیں؟ اور جیلی جیسا ذائقہ ہو؟”
پاکستان چین کو تازہ آم درآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، حالیہ برسوں میں، میٹھے، نرم پاکستانی آم کئی بار چین کو برآمد کیے گئے جنہیں چینی باشندوں نے خریدا اور خوب پسند کیاہے۔ حافظ تنویر حمید کو امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ چینی لوگ پاکستانی آم کو چکھیں گے اور پسند کریں گے اور آم کو دونوں ممالک کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کے لیے ایک ذریعہ بنائیں گے۔