پانچ چھ سال ادھر کی بات ہے ، ایک مرتبہ دیار غیر میں لوڈ شیڈنگ یاد آئی ۔
اس اصطلاح سے تو ہم سب ہی واقف ہیں ۔ شہروں میں چار چھ گھنٹے اور دیہی علاقوں میں بارہ بارہ ، سولہ سولہ گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، جو کڑی گرمیوں میں کروڑوں لوگوں کو تڑپا دیتی ہے ۔ گھروں ، سڑکوں اور بستیوں میں اندھیرے کا راج ، ساکت پنکھے ، اور ایک ہولناک بے بسی ۔
یہ لوڈ شیڈنگ ایک جگمگاتی سڑک پر اچانک یاد آئی اور میں جیسے کسی نیند سے جاگ گیا۔
دو چار دن کے لئے ابوظہبی گیا تھا جہاں اسٹار مارکیٹنگ کی پراپرٹی نمائش تھی ۔ باقی دوستوں کو ابوظہبی سے ہی واپس آنا تھا مگر مجھے واپسی کی پرواز کے لئے دبئی جانا تھا جو 140 کلومیٹر دور تھا ۔
میں ٹیکسی کے ذریعے شام ڈھلے ابوظہبی سے روانہ ہوا تو ذرا سی دیر بعد اندھیرا چھا گیا ۔ متحدہ عرب امارات کی مرکزی سڑک ، شیخ زید روڈ ایسی شاہراہ ہے جو تمام امارات کو آپس میں ملاتی ہے ۔ میں نے دیکھا ، اندھیرے میں صحرا نما علاقے سے گزرنے والی یہ سڑک جگمگا رہی تھی ۔ دو رویہ سڑک پر آنے اور جانے والی گاڑیاں بہت کم تھیں مگر کھمبوں پر نصب تیز ایل ای ڈی لائٹس نے سڑک کو یوں روشن کر رکھا تھا کہ رات پر دن کا گمان ہوتا تھا ۔ جب ٹیکسی کوئی تیس چالیس کلومیٹر طے کر چکی اور روشنیوں میں کوئی کمی نہ آئی تو میں نے بے اختیار سوچا ، کتنی بجلی ضائع کرتے ہیں یہ لوگ !! پھر مجھے خود اپنے ہی خیال پر ہنسی آئی ۔ ہم غریب ملکوں کے شہریوں کا مائنڈ سیٹ الگ ہی بن جاتا ہے ۔ ہم یہ سوچنے کے قابل بھی نہیں رہتے کہ شاہراہوں کو رات کے وقت اسی طرح روشن ہونا چاہیئے ۔ ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ دولت مند ملک آسانی سے بجلی بنا بھی لیتے ہیں ، دوسرے ملکوں سے خرید بھی لیتے ہیں ۔
فارغ بیٹھا تھا ۔ اسی ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے گوگل سے رابطہ کیا کہ دیکھوں ، کتنے ملک ہیں جو بجلی تیار کر کے دوسرے ملکوں کو بیچ دیتے ہیں ۔ جواب ایسا آیا کہ چودہ طبق روشن ہو گئے ۔
پتا چلا، دنیا کے 93 ممالک بجلی برآمد کرتے ہیں۔ ان میں بڑے ، ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں ، چھوٹے ، ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں ۔ پاکستان سے بہت چھوٹے ، بہت غریب ملک بھی ۔ ایسے ملک بھی جن کے نام تک نامانوس لگتے ہیں ۔ روانڈا ، نکاراگوا ، منگولیا ، پیرو ، ایل سلواڈور ، نمیبیا ، یوگینڈا ، پاناما ، مراکش ، ایتھوپیا ، کرغیزستان ، گھانا ، ایکواڈور ، میسیڈونیا ، کانگو ، ہونڈراس ، کوسوو ، مونٹی نیگرو۔۔۔۔۔۔ یا مظہر العجائب! اتنے نام کہ عقل دنگ رہ جائے ۔ خراب معیشت والے ، غربت والے ، خالی خزانوں والے ملک ، جو ہائیڈرو پاور یعنی پانی سے ، فرنس آئل سے ، کوئلے سے دھڑا دھڑ بجلی بنا رہے ہیں ، پڑوسی ملکوں کو فروخت کر رہے ہیں ، پیسے کما رہے ہیں۔ بڑے ملکوں میں (فرانس جیسے) کچھ ایسے بھی ہیں جو نیوکلیئر پلانٹس کے ذریعے بجلی بنا کر برآمد کر رہے ہیں۔
میں اس شیخ زید روڈ پر ڈیڑھ گھنٹے تک سفر کرتا رہا جو روشنیوں سے نہائی ہوئی تھی، اور پاکستان کی لوڈ شیڈنگ کا تصور کرتا رہا ۔ سوچتا رہا کہ کیا تماشا ہے ۔ چار پانچ عشروں سے ہم نے کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا ، پانی اسٹور کرنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا ، کروڑوں کیوسک پانی آسمان سے برستا ہے، دریاوں میں بہتا ہے ، اور بجلی بنانے کے بجائے ہلاکتیں پھیلاتا ، بستیاں تاراج کرتا سمندر میں جا گرتا ہے ، ہماری بجلی کا شارٹ فال سال بہ سال بڑھتا جا رہا ہے ، ہمارے لوگوں کو برسوں کالا باغ ڈیم کی سیاسی بحث میں الجھائے رکھا گیا ہے ، ہمارے نجی شعبہ کے پاور پلانٹس ، حکومتوں کی جانب سے ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوتے جا رہے ہیں ، اور ہم سدھائے ہوئے جانوروں کی طرح ، وژن سے محروم رہنماؤں کے پیچھے چلتے جا رہے ہیں ، ہجوم در ہجوم خوشی خوشی تاریکی کی جانب سفر کرتے جا رہے ہیں ۔