پشاور(نمائندہ خصوصی) جو اپنی 90 دنوں کی آئینی مدت کے بعد بھی قائم رہنے کے باعث تنازعات کا شکارہوکر رہ گئی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے سمری 17 جنوری 2023ئ کو گورنر کو ارسال کی تھی جس پر گورنر حاجی غلام علی نے 18 جنوری کو دستخط کیے اور اسمبلی تحلیل ہوگئی۔صوبے کے سینئر بیوروکریٹ اعظم خان نے 21 جنوری کو نگران وزیراعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا تھا جس کے مطابق صوبائی اسمبلی کے انتخابات ماہ اپریل میں منعقد ہونے تھے تاہم مذکورہ انتخابات صوبے میں امن و امان کی صورت حال اور دیگر وجوہات کی بنائ پر تاحال منعقد نہیں ہوسکے۔صوبے میں نگران حکومت کو قائم ہوئے 177 دن ہوچکے ہیں جبکہ اسمبلی کی تحلیل کو چھ ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے تاہم تاحال صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے صورت حال واضح نہیں اور قومی اسمبلی کی اگست میں تحلیل اور عام انتخابات اکتوبر میں ہونے کی صورت میں صوبے کی نگران حکومت، منتخب حکومت کے قیام تک مزید ساڑھے تین ماہ اقتدار سنبھالے رکھے گی۔عام انتخابات کا انعقاد نومبر میں ہونے کی صورت میں یہ عرصہ مزید ساڑھے چار ماہ تک پھیل جائے گا جس سے صوبہ کی نگران حکومت ساڑھے نو سے ساڑھے دس ماہ تک اقتدار میں رہے گی۔نگران حکومت کی آئینی مدت 90 دن ہوتی ہے جس کے اندر رہتے ہوئے اسے انتخابات کرانے ہوتے ہیں تاہم انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے اعظم خان کی نگران حکومت کو لمبی اننگ کھیلنے کا موقع مل گیا۔