اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ آف پاکستان نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف آئینی درخواستوں پر 22 جون کے جاری کیے گئے تحریری حکم نامے کے ساتھ جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفاد عامہ کے معاملات پر فل کورٹ بینچ بنانے میں ہچکچاہٹ دکھائی جا رہی ہےے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں کہا کہ میں اس بینچ میں تحفظات کے ساتھ بیٹھا، گزشتہ کچھ عرصے سے بینچ کی تشکیل کےلئے متواتر ایک ایک مخصوص پیٹرن نظر آ رہا ہے، چند معزز ججز کے اسپیشل بینچ بنائے گئے، مفادِ عامہ کے معاملات پر فل کورٹ بینچ بنانے میں ہچکچاہٹ دکھائی جا رہی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مفادِ عامہ کے ان معاملات کے بنیادی حقوق اور سیاسی، معاشی و سماجی سطح پر گہرے اثرات ہیں، فل کورٹ کی عدم تشکیل سے اس عدالت کی اتھارٹی اور فیصلوں کی قانونی حیثیت متاثر ہو رہی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حالیہ معاملے کی آئینی حیثیت اعلیٰ ترین عدالتی جانچ کا تقاضہ کرتی ہے، میں نے اس عدالت کی سالمیت اور اختیار کے تحفظ کےلئے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی، چیف جسٹس پاکستان نے میری یہ استدعا قبول نہیں کی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فل کورٹ نہ بنانے سے، میری رائے میں عدالت کی اتھارٹی اور فیصلوں کی قانونی حیثیت کمزور ہو گی، سویلین کے فوجی ٹرائل کے مقدمے کی آئینی اہمیت اور سیاسی انتشار متقاضی ہے کہ اس پر اعلیٰ پائے کی عدالتی پڑتال ہو۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عوامی اہمیت کے مقدمات میں تمام ججوں کی مختلف الخیال رائے سے عدالت بہتر فیصلہ کرتی ہے، فل کورٹ کی اجتماعی دانش سے کیے گئے فیصلوں سے عدالت پر عوام کا اعتماد بڑھتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ چیف جسٹس کو سویلین کے فوجی ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کےلئے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے لیکن فاضل چیف جسٹس نے اپنی دانش میں فل کورٹ تشکیل نہیں دیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اپنے حلف کی پاسداری اور آئینی ذمے داری کے تحت میرے پاس بینچ میں بیٹھنے کے سوا دوسرا راستہ نہیں، میرا حلف ہے کہ میں بشمول بنیادی حقوق آئین کا دفاع اور تحفظ کروں۔