کراچی (بیورو رپورٹ ) کمشنر کراچی سرکاری ریٹ پر دودھ کی فروخت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں، سرکار کا مقرر کردہ ریٹ 180 روپے ہے جبکہ ڈیری اسوسی ایشن اپنے طور پر دودھ کے ریٹ میں 20 روپے کا اضافہ کر کے حکومتی ریٹ کو چیلنج کر رہی ہے۔ مارکیٹ میں 230 سے 240 روپے دودھ فروخت ہو رہا ہے غریب اور متوسط طبقہ اپنے بچوں اور گھر کے لیے دودھ کی خریداری سے گھبرا رہا ہے کیونکہ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان کی زد میں ہے اور اب ان دو طبقوں کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ صارفین کی نمائندہ تنظیم کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کل سے ایک ہفتے کے لیے مہنگے دودھ کی خریداری کی بائیکاٹ مہم شروع کر رہی ہے، اگر صارفین نے اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بائیکاٹ مہم میں بھرپور ساتھ دیا تو امید ہے کہ ڈیری فارمرز جلد ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے، یہ بات کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے دودھ کی قیمتوں میں بلا جواز اضافے پر بلائے گئے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر میڈیا کے نمائندے بھی موجود تھے انہوں نے کہا گزشتہ دو سالوں میں وقتا ا فوقتا ادودھ کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے جسکی وجہ سے حکومتی ریٹ 180 تک جا پہنچا ہے مگر جب بھی حکومت ریٹ مقرر کرتی رہی تو تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ دودھ فروشوں نے حکومتی ریٹ پر دودھ فروخت کرنے کے بجائے اپنے مقرر کردہ ریٹوں پر ہی دودھ فروخت کیا ایک یا دو روپے کا اضافہ نہیں بلکہ 10 سے 20 روپے اضافی فروخت کر کے ناجائز منافہ کمایا مگر کمشنر کراچی جو کنٹرولر جنرل پرائسز کا بھی عہدہ رکھتے ہیں انہوں نے کبھی ان کے خلاف سخت ایکشن نہیں لیا اگر منافع خور دودھ فروشوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی رہتی بھاری جرمانے اور حکومتی ریٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جاتے تو اج دودھ فروشوں کو اپنے ریٹ مقرر کرنے کی جرات نہ ہوتی کوکب اقبال نے کہا کہ کنزیومر ایسوسی ایشن اف پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ صارفین کو دودھ سمیت پھل، سبزی اور کریانہ کے ائٹم سرکار کے مقرر کردہ نرخوں کے مطابق مارکیٹ میں دستیاب ہوں سرکار کی مقرر کردہ نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کمشنر کراچی اور تمام ڈپٹی کمشنرز پر عائد ہوتی ہے مگر کبھی بھی صارفین کو مقرر کردہ نرخ پر کوئی بھی اشیاء دستیاب نہیں ہوتی جبکہ ملک کے تمام صوبوں میں کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ نافذ ہو چکا ہے مگر اس پر عمل درامد ناممکن نظر اتا ہے حالانکہ سبزی والے سے لے کر صدر پاکستان تک سب صارف ہیں۔ سندھ فوڈ اتھارٹی بھی دودھ کو چیک کرے کہ کراچی شہر میں فروخت ہونے والا دودھ کتنا خالص ہے کیا کراچی کی عوام مہنگا اور ملاوٹ والا دودھ خرید رہے ہیں ، یہ بات تو عام ہے کہ دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے وہ پانی کیا جراثیم سے پاک ہوتا ہے کیونکہ اب تو لوگ نلکوں کے پانی پینے کو ترجیح نہیں دیتے اس لیے بوتلوں کے پانی کا کاروبار عروج پر چلا گیا ہے کوکب اقبال نے ایک بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے دودھ کے ساتھ کبھی بھی دہی اور لسی کی قیمت مقرر نہیں کی دودھ فروش روزانہ ان دونوں چیزوں کی قیمت میں بلاجواز اضافہ کر کے منافع خوری کر رہے ہیں دوسری طرف بیورو اف سپلائی کا محکمہ جو کہ ناپ تول کو چیک کرتا ہے وہ بھی فعال نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے صارفین کو دودھ لیٹر کے بجائے کئی دکاندار سیر میں فروخت کررہے ہیں۔ کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے کہا حکومت ڈیری فارمرز سے پوچھے کہ ان کے ڈیری فارمز اپنے ہیں یا زمینوں پر قبضے کر کے بنائے گئے ہیں وہ کتنا بجلی اور پانی کا بل ادا کرتے ہیں بھینسوں کو مہینے میں کتنی دفعہ ڈاکٹر سے چیک کرواتے ہیں کیا ان کی بھینسیں تندرست ہیں جن کا دودھ شہر کراچی میں فروخت ہو رہا ہے کراچی کی دکانوں پر دودھ فروخت کرنے کے لیے جو برتن استعمال کرتے ہیں وہ کیا ہائیجین کے مطابق ہوتے ہیں دودھ فروخت کرنے والے کتنے دوکاندار سندھ فوڈ اتھارٹی کے ایس او پیز پر عمل کرتے ہیں آیا کہ کبھی دودھ کی دکان میں موجود اسٹاف کا طبعی معائنہ کرایا گیا کیونکہ سندھ فوڈ اتھارٹی کے قوانین ریسٹورنٹس کی طرح دودھ فروشوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں انہوں نے واضح کیا کہ اگر دودھ فروشوں، ڈیری اسوسی ایشن نے فوری طور پر اپنے من مانے اضافے کو واپس نہیں لیا تو بائیکاٹ مہم کو ایک ہفتے کے بجائے مزید جاری رکھا جا سکتا ہے کوکب اقبال نے کہا کہ صارفین خود اپنے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کی مہنگے دودھ کے خلاف بائیکاٹ مہم میں پرزور طریقے سے شامل ہوں تاکہ اگلے مہینے دودھ فروش جو مزید 20 روپے کا اضافہ کرنے والے ہیں ان کو صارفین اپنے اتحاد سے سبق سکھا دیں کوکب اقبال نے کہا کہ وہ دودھ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ، گورنر سندھ کامران خان ٹسوری اور چیف سیکرٹری سہیل راجپوت کو بھی خط ارسال کر رہے ہیں۔