جب بھی ٹیلی ویژن پر یا اخبار پر یہ خبر دیکھنے یا پڑھنے کو ملتی ہے کہ پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹ میں سے ایک بن گیا ہے یا بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی فلاں کام کی وجہ سے جگ ہنسائی ہوئی ہے دنیا کے فُلاں ملک کی ائیر لائن نے پاکستان میں فضائی سفر معطل کردیا ہے غیرہ وغیرہ تو میرا دل بوجھل ہوجاتا ہے کہ ہمیں ایسی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں تاہم ملک میں ایسے بھی بہت سارے کام ہورہے ہیں جن کو ہمیں بتانے کی ضرورت ہے۔ بقول ِاقبال
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یہ مصرع میرے دل اور دماغ میں کوند جاتا ہے کہ ہم ایسے تو نہ تھے۔
آج بھی میرے وطن کے جوان، ڈاکٹرز، سائنسدان اور انجنئیرز دنیا بھر میں بڑی بڑی خدمات سرانجام دے رہے ہیں
آج میں آپ سب کے سامنے ایک ایسی ہی خبر کو لے کر آیا ہوں جو یقیناً وطن عزیز کے لئے فخر کے ساتھ ساتھ ہم سب کے لیے خوشی کا اور عزت کا باعث ہے۔ہمیں اس عظیم مشن کی خبر کو شئیر کرتے ہوئے فخر محسوس کرنا چاہیے کیونکہ اس خبر کا تعلق براہ راست پاکستان سے ہے۔ پاکستان میں ایک ادارہ ایسا بھی ہے جو خاص طور پراسلامی ممالک اور پوری دنیا میں پاکستان کی مثبت عکاسی کا سفیر ہے۔ اس ادارے کو کامسٹیک کہتے ہیں جوکہ دارالحکومت اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر وزیراعظم آفس کے عین سامنے واقع ہے۔
یہ دفتر مسلم ممالک کی مشترکہ تنظیم او۔آئی۔ سی( اسلامی تعاون تنظیم) کا سب سے متحرک اور سرگرم ادارہ ہے۔ اسلامی دنیا میں پاکستان کے پاس بین الاقوامی طرز کا ایک ہی ادارہ ہے جس کی سربراہی پاکستان کے پاس ہے وہ یہی کامسٹیک ہی ہے۔
اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری مسلم ممالک کے درمیان تحقیق و تعلیم ک فروغ ہے۔ اس مختصر سے تعارف کا بعد میں آپ کو اصل خبر کی بابت آگاہ کرتا ہوں۔
کسی شخص کے لیے اس سے بڑھ کے نعمت کیا ہوگی کہ وہ عمر رواں گزار تو رہا ہو مگر تو اندھے پن کے مرض سفید موتیا کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا ہو اور و وہ دنیا کی روشنی نہ دیکھ سکتا ہو اور اس کے پاس علاج کے لیے سوائے حسرتوں کے کچھ نہ ہو مگر کوئی کرامت ہو اور محض دو ہی دنوں میں اس کی آنکھوں میں بصارت کا نور بھ جائے اوراس کی آنکھیں دنیا بھر کی نعمتیں دیکھ کر شکر خدا کرتے کرتے پرنم ہوجائیں۔
اور آنکھوں میں بصارت لانے کا یہ عظیم مشن اگر دنیا کے دور دراز خطے براعظم افریقہ میں سر انجام دیا جا رہا ہوجہاں رہنے کو گھر، پینے کو پانی، پہننے کو کپڑے اور کھانے کو کھانا میسر نہ ہو- جہاں کا ہر تیسرا فرد اندھے پن کے مرض سفید موتیے کا شکار ہو تو سمجھ لیں کہ اس سے بڑا انسانیت کی خدمت کا کارنامہ ہو نہیں سکتا۔
مندرجہ بالا کارنامہ کسی اور نے نہیں بلکہ پاکستان کے عظیم ڈاکٹروں نے وسطی افریقہ کے غریب مسلمان ملک جمہوریہ چاڈ میں انجام دیا ہے۔ ان ڈاکٹروں کا تعلق پاکستان میں آنکھوں کا مفت علاج کرنے والے سب سے بڑے ٹرسٹ لیٹن رحمت اللہ بینوویلنٹ ٹرسٹ سے ہے۔ اس پورے عظیم مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا انتظام اسلامی تعاون تنظیم کی وزراتی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی (کامسٹیک سیکرٹریٹ) نے کیا۔ کامسٹیک کا قیام تیسری اسلامی سربراہی کانفرنس جو مکہ مکرمہ میں سال 1981 میں ہوئی تھی ، کے دوران عمل میں لایا گیا۔ اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق اسلامی ممالک کے ساتھ خصوصی سفارتکاری کے ذریعے اس ادارے کو پاکستان میں لانے میں کامیاب ہوئےاور کامسٹیک کا ہیڈ کوارٹرز پاکستان کو دے دیا گیا جس کا باقاعدہ آغاز 1988 میں ہوا۔ صدر پاکستان اس کے چئیرمین جبکہ وزیراعظم پاکستان اس کے شریک چئیرمین ہیں۔ ادارے کا نظم و نسق اور انتظام کوآرڈنیٹر جنرل کے سپرد ہے جسے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کہا جاسکتا ہے جو ہر چار سال کی مدت لیے صدر مملکت کی جانب سے مقرر کیا جاتا ہے۔
اس وقت کامسٹیک کی سربراہی مسلم دنیا میں سائنس کا سب سے بڑا ایوارڈ مصطفے پرائز جیتنے والے پہلے پاکستانی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا نام سائنس، کیمیسٹری اور سائنس ڈپلومیسی میں ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔
اس تمام تر تعارف کے بعد میں آپ کو اسی جانب لیے چلتا ہوں جہاں سے بات شروع کی تھی۔
تاریک براعظم میں روشنیوں کے اس سفر پر چھ سنئیر ماہر امراض چشم اور دو کامسٹیک کے عہدیدران سمیت آٹھ رکنی یہ دستہ رواں سال 21مئی کو کراچی سے بزریعہ استنبول چاڈ کے دارالحکومت انجامینا کے لئے روانہ ہوا۔
راقم خود اس دستے کا حصہ تھا سو اسی سبب اس اہم منصوبے کا چشم دید گواہ ٹھہرا۔
پاکستان سے جانے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا میڈکل مشن تھا جو جدید ٹیکنالوجی اور آپریشن کے جدید آلات سے آراستہ تھا۔ مشن کی تمام ادویات، آلات جراہی وغیرہ سب پاکستان سے ساتھ لے جایا گیا۔ یاد رہے کہ آنکھوں کے مفت آپریشن کا آٹھ روزہ یہ کیمپ کامسٹیک، اسلامی ترقیاتی بنک اور لیٹن رحمت اللہ بینوویلنٹ ٹرسٹ کے مشترکہ تعاون سے لگایا جارہا تھا۔ شدید موسمی حالات، سہولیات کی عدم دستیابی اور مشکل حالات کے باوحود سفید موتیے کے چار سو آپریشن مکمل کرکے کامیابی سے وطن لوٹنے والے ان ڈاکٹروں کا تعلق لیٹن رحمت اللہ بینوویلنٹ ٹرسٹ سے تھا جنہیں ” کامسٹیک "کے پروگرام برائے افریقہ کے تحت چاڈ بھجوایا گیا۔
آٹھ رکنی یہ دستہ 15 گھنٹوں کا لمبا فضائی سفر طے کرنے کے بعد 22 مئی کی صبح کو انجامینا جو کہ چاڈ کا دارالحکومت ہے، وہاں پہنچا۔
موسم شدید گرم تھا اور درجہ حراررت 45 ڈگری کو چھورہا تھا حبس، بجلی کی 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، مقامی زبان فرنچ کا نہ آنے سمیت کئی بڑے بڑے مسائل نے ہمارا استقبال کیا۔ چونکہ وہاں انگریزی نہیں سمجھی جاتی اس لیے ہمیں سب سے بڑا مسئلہ میزبانوں سے بات چیت میں پیش آرہا تھا۔
تاہم محبت اور خلوص کی زبان ساری دنیا میں سمجھی اور بولی جاسکتی ہے اوروطن ِ عزیز کی نمائندگی کرتے ہوئے تمام ارکان کے جزبے اتنے جوان تھے کہ یہ مشکل جلد ہی سنبھل گئی۔
ہماری میڈیکل ٹیم نے تمام تر انتظامات مکمل کرنے کے بعد 24 مئ کی صبح 9 بجے جب سفید موتیے کے آپریشن شروع کیے تو انجامینا کے مقامی ہسپتال کے باہر لوگوں کی لمبی لائنیں لگی تھیں۔دور دور سے آئے ان صحرا نشینوں کی حالت زار کو دیکھ کر کئی بار رونا آیا۔ ٹولیوں کی تعداد میں آئے بچے، بوڑھے، مرد خواتین، معزور افراد حتی کہ نوجوان۔ سب ہی پرچم پاکستان، کامسٹیک، ایل آر بی ٹی اور او۔آئی۔سی کا جھنڈا دیکھ کر عربی میں ” شکراً” شکراً” بول اٹھے۔
بڑے تعجب کی بات تھی کہ پہلے دن ہماری شکلوں کو دیکھ کر لوگ ہمیں "نمستے نمستے ” بول رہے تھے ہمارے جنوب ایشیائی چہروں کو دیکھ کر مقامی لوگوں کو یہی لگا ہمارا تعلق انڈیا سے ہے۔ کیونکہ وہاں پاکستان کا کوئی سفارتخانہ موجود نہیں تھا نہ ہی پاکستانی کمیونٹی زیادہ تعداد میں تھی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ صرف 10 پاکستانی یہاں موجود ہیں جبکہ انڈیا کی تمام اشیاء وہاں موجود تھیں جن میں سرفہرست انڈین ریستوران اور انڈین ٹیلی کام کمپنی ائیر ٹیل ہے۔ وہاں کے لوگ ائیر ٹیل کا فور جی نیٹ ورک استعمال کررہے تھے تاہم ہمارے سینوں پر پاکستانی پرچم دیکھ کر اور ہمارے آپریشن تھیٹر کے باہر پاکستانی پرچموں لہراتا ہوا دیکھ کر لوگ بہت خوش ہوئے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ایک دفعہ ہم چاڈ کی جامع مسجد میں مغرب کی نماز پڑھنے گئے تو چاڈ کے مفتی اعظم کو معلوم ہوا کہ پاکستانی لوگ مسجد میں موجود ہیں تو انہوں نے سب نمازیوں کو بٹھا کر وطن عزیز کے لیے دعا کروائی ۔ وہاں کے لوگ پاکستان کا نام سن کر خوش ہورہے تھے۔
ہمارے ساتھ موجود ماہرین امراض چشم نے پہلے دن تقریباً 70 کے قریب آپریشن مکمل کئے۔ پہلے روز وہاں کے موسم کی شدت، لوڈ شیڈنگ، اور آپریشن تھیٹر میں اے سی کے ٹرپ کرجانے جیسے بہت مسائل ہمارے سامنے تھے مگر یہ ہر مشکل ہمارے عزم کو مزید بلند کررہی تھی۔
24 مئی سے لے کر 29 مئی تک ہم اپنے ٹارگٹ 400 مفت آپریشن کو حاصل کرچکے تھے. اس دوران پوسٹ ایگزامن آپریشن بھی کیے گئےیعنی جن افراد کا آپریشن ہوچکا ان کا دوبارہ معائنہ بھی کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر وہاں کے مقامی ڈاکٹرز کو جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے خود سرجری کرنے کی خصوصی تربیت بھی فراہم کی گئی۔
نوجوانوں کو اندھے پن سے بچنے کے لیے آگاہی مہم کا آغاز کیا گیا اور سب سے آخر میں دوائیوں اور آنکھوں کےآپریشن کے آلات کی بڑی کھیپ چاڈ کے مقامی ڈاکٹروں کے حوالے کی گئی جس سے وہ مقامی افراد کے مفت آپریشن جاری رکھیں گے۔
جب یہ مشن مکمل ہورہا تھا تو کئی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ روتی ہوئیں بزرگ خواتین ہمارے ماتھوں کو چوم چوم کر دعائیں دی رہی تھیں۔ وہ لوگ جو ایک ہفتہ پہلے تک بینائی کی نعمت سے محروم تھے اب دنیا کی روشنی کو دیکھ سجدہ شکر کررہے تھے وہیں پر اس مشن کے روح رواں ادارے کامسٹیک کے لیے ڈھیروں دعائیں کر رہے تھے ۔ہمارا پاکستان کا پرچم تھامے تصاویر بنارہے تھے۔ کچھ خواتین میڈیکل مشن کے ارکان کے لیے گھر سے کھانا لے آئیں۔
یوں یہ عظیم کام ان حسین یادوں، ان گنت مسائل سے لڑ کر مشن کو سرا انجام دینے کے تجربوں سمیت چاڈ کی مقامی کمیونٹی کی دعاؤں پر مکمل ہوا۔
اس مشن کے پیچھے کامسٹیک کے موجودہ کوآرڈنیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کا ویژن برائے کی افریقی مسلمان ممالک جو ترقی کی شرح سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، وہ رہ نماتھا۔ اس سے قبل ایسا ہی مشن 2021 میں افریقی غریب مسلمان ملک نائجیر میں بھی انجام دیا گیا جہاں 400 لوگوں میں بصارت کے لئے یہ خصوصی آپریشنز مفت کئے گئے تھے۔
کامسٹیک جو کہ اس جیسے کئی منصوبوں کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس کا سب سے بڑا منصوبہ فیلوشپ پروگرام برائے طلبہ ہے جس میں او آئ سی کے رکن ممالک کے طلبہ کو پاکستان کی مختلف جامعات میں لاکر چھ مہینے یا ڈگری کے لیے مفت فیلوشپ دینا اور انہیں پاکستانی جامعات کی لیبارٹریوں تک رسائی دے کے مفت تریبت دینا شامل ہیں ۔ کامسٹیک کے اس پروگرام کو کامسٹیک کنسورشیم آف ایکسیلینس فیلوشپ کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے کئ بڑے منصوبے یمن، سوڈان، نائجریا، صومالیہ، فلسطین،کرغستان، ماریطانیہ، یوگنڈا، کیمرون، کینیاء، گیمبیاء اور شام کے لیے شروع کیے گئے ہیں۔
ان سب منصوبوں کا براہ راست فائدہ پاکستان کو ہی ہوگا کیونکہ ان کے سبب بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی اچھے الفاظ اور پریکٹیکل صورت میں ہورہی ہے تو یوں یہ ادارہ پاکستان کی بہتر عکاسی کا سفیر قرار پاتا ہے۔ دعا ہے کہ ایسے تمام منصوبوں سے متعلق ہمیں ہمارے میڈیا کے ذریعے دیکھنے اور سننے کا موقع ملے تاکہ روشنی کے اس سفر کو مزید پھیلایا جاسکے۔