کوئٹہ( نمائندہ خصوصی )
جان ہتھیلی پر رکھ کر ہزاروں نوجوان مکران کے سرحدی علاقوں سے ایرانی تیل اور خوردنی اشیا نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں پہنچاتے ہیں بلوچستان میں سرکاری ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے اور انڈسٹریز کی عدم دستیابی کے باعث ایران سے پیٹرول اور خوردنی اشیا کی اسمگلنگ سب سے بڑا کاروبار بن گیا۔جان ہتھیلی پر رکھ کر ہزاروں نوجوان مکران کے سرحدی علاقوں سے ایرانی تیل اور خوردنی اشیا نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں پہنچاتے ہیں۔صوبائی وزیر زراعت میر اسد بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی دو کروڑ دس لاکھ کی آبادی ہے ،لوگوں کے گھر اور چولہے اسی تیل سے جلتے ہیں، اگر یہ نہ ہوتا تو بھوک ہوتی ،افلاس ہوتی ،غربت ہوتی۔ان کے الفاظ سے صوبے میں بے روزگاری کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔اس صورتحال سے سب زیادہ متاثر مکران کے نوجوان ہیں ، صنعتیں نہ ہونے اور ملازمتوں کے مواقع کم ہونے سے ہزاروں نوجوان ایرانی تیل ،کوکنگ آئل اور خوردنی اشیاء کی اسمگلنگ کے کارروبار سے منسلک ہیں۔ ایرانی سرحد سے پہاڑوں میں جان جوکھم میں ڈال کر پیٹرول اور دیگر اشیاء مکران اور رخشان لاتے ہیں جہاں سے یہ سب ملک کے مختلف علاقوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔