اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے کہا ہے کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران دو پنشن کی صورت میں ایک پنشن وصول کر سکیں گے،ایم کیو ایم سمیت حکومت کی تمام اتحادی جماعتوں میں جس کسی کو بھی تحفظات ہیں، قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی میں لے کر آئیں، مل بیٹھ کر ان کا جائزہ لیں گے۔ اتوار کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اسحق ڈار نے کہا کہ بجٹ منظور ہو گیا ہے، فنانس کمیٹی کے ذریعے اپنی تجاویز لے کر آئیں ان پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے،کابینہ نے توانائی کی بچت اور دیگر اہم اقدامات کی منظور دی، وزراءکی اکثریت نے کفایت شعاری پالیسی کے تحت تنخواہ بھی نہیں لے رہے۔ انہوں نے کہا کہ فنانس کمیٹی کا احترام کرتے ہیں، تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ کا فیصلہ ہم نے سب کی اجازت سے کیا ہے، یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک ادارے کی 98 فیصد اور باقی اداروں کی 20 فید تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں سندھ اور بلوچستان کے حوالے سے بعض نئی اسکیمیں شامل کی گئی ہیں جن کو بعد میں پی ایس ڈی پی میں شامل کیا گیا، پی ایس ڈی پی کی نئی تریم شدہ تفصیلات میں پیش کی جائیں۔ قبل ازیں صابر حسین قائمخانی نے کہا کہ بجٹ کے موقع پر سرکاری ملازمین نے بڑی جانفشانی سے کام کیا ہے، حسب روایت ان کے لئے اعزازیہ کا اعلان کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک کا بجٹ ایوان منظور کرتا ہے، فنانس کمیٹی اور اس ایوان کو اختیار ہونا چاہیے جو بھی چیز غیر ضروری ہو گی ہم خود اس کو ختم کریں گے، وزارت خزانہ کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اسمبلی کے بجٹ پر کٹ لگائے۔ صابر حسین قائمخانی نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اسمبلی کے اخراجات کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کی ہے۔وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ اور دیگر ارکان کی طرف سے اٹھائے جانے والے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے جو افسران دو پنشن وصول کر رہے تھے، اب وہ ایک پنشن وصول کر سکیں گے، ایک سے 16 گریڈ والے ملازمین پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہاں لوگ آرمی چیف، پھر چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر پاکستان کی پنشن لیتے رہے ہیں جس کا غریب ملک متحمل نہیں ہو سکتا، اسی طرح پنشنر کی بیوہ کے انتقال پر پسماندگان کے لئے 10 سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پنشن اصلاحات ضروری ہے کیونکہ 800 ارب روپے سالانہ تک اس کا حجم بڑھ چکا ہے، کئی ممالک کے برعکس پاکستان میں پنشن کے حوالے سے صورتحال بہتر ہے۔ غوث بخش مہر کی جانب سے ڈی اے پی پر سبسڈی کے خاتمے سے متعلق نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈی اے پی پاکستان میں تیار ہوتا ہے، 1998-99 میں پاکستان میں اس کی فیکٹری لگائی گئی تھی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ امپورٹڈ ڈی اے پی پر سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی کمپنی نے ڈی اے پی کی پیداوار میں اضافے کے لئے مزید 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا ہے۔ تاہم وزیر خزانہ نے کہا کہ اس معاملہ کا بجٹ کے بعد جائزہ لیا جائے گا، زراعت معیشت کی نمو کا انجن ہے، کسان پیکج کے تحت ڈی اے پی کی قیمت 14 ہزار روپے سے کم کر کے 10 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ اللہ کے شکر گزار ہیں جنہوں نے انہیں آنے والے مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش اور منظور کرانے کا اعزاز بخشا اور ملک و قوم کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی، ارکان اسمبلی نے جس صبر و تحمل اور بردباری کے ساتھ یہ قومی فریضہ سر انجام دیا ہے وہ لائق تحسین ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹ، چیئرمین سینیٹ، اراکین سینیٹ، اراکین قومی اسمبلی، ایف بی آر، وزارت خزانہ، وزارت منصوبہ بندی اور دیگر معاون اداروں کی طرف سے فراہم کردہ تعاون کا بھی مشکور ہوں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ اس معاشی سفر کا دوبارہ آغاز ہے جو 2018 میں منقطع ہو گیا تھا، یہ ایک مشکل سفر ہے، گزشتہ سال جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ملک مشکل حالات کا شکار تھا، وزیراعظم کی بصیرت، قوت ارادی اور معاملہ فہمی کی بدولت ہم معاشی استحکام لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، معیشت میں گراوٹ کا عمل رک چکا ہے، گزشتہ سال ذمہ داریوں کے آغاز پر ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا، ہمارے پاس ریاست یا سیاست بچانے کے راستے تھے، ہم نے اپنی سیاسی ساکھ کو داﺅ پر لگا کر ملک اور ریاست کو ترجیح دی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اتحادی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت کی گراوٹ کا عمل رک کر اب استحکام کی راہ پر گامزن ہے، ہمارا اگلا ہدف ترقی کے سفر کا آغاز ہے جس کے لئے بجٹ میں ٹھوس تجاویز دی گئی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ وزیراعظم، وفاقی کابینہ، اتحادی جماعتوں اور پارلیمانی لیڈران کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے بجٹ ترجیحات پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کے کردار کو بھی سراہا اور کہا کہ سپیکر نے صبر و تحمل اور حکمت و دانائی کے ساتھ بجٹ کا پورا سیشن مکمل کیا۔ وزیر خزانہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کل خصوصی حج پرواز کے حوالے سے ان کے بیان کو میڈیا اور سوشل میڈیا میں غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے، تمام اراکین اپنے اپنے اخراجات پر حج کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت نے مزید حج پروازوں کو بند کر دیا تھا چونکہ بجٹ سیشن جاری تھا اس لئے ہم نے سعودی حکومت سے درخواست کی کہ ایک پرواز کو آنے کی اجازت دی جائے تاکہ جو ارکان اور دیگر شہری حج پر جانا چاہیں تو وہ جا سکیں، اس حوالے سے تمام اخراجات متعلقہ ارکان اور افراد خود ادا کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالیاتی بل اور پی ایس ڈی پی میں تبدیلیاں آئندہ 24 سے 48 گھنٹے میں شامل کی جائیں گی۔ وزیر خزانہ نے اس موقع پر قومی اسمبلی، سینیٹ سیکرٹریٹ اور بجٹ کے پورے سیشن میں مختلف اداروں کے فرائض سر انجام دینے والے ملازمین کے لئے تین ماہ کی بنیادی تنخواہ کے اعزازیہ کا اعلان بھی کیا۔