اسلام آباد (کورٹ رپورٹر ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کیلئے حکم امتناع کی درخواست مسترد کر دی۔ لطیف کھوسہ نے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کی، سپریم کورٹ نے فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کر دی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حکم امتناع جاری نہیں کرسکتے، وکلاءسائلین کا دفاع کرتے ہیں تاہم وکلاءکو ہراساں کیا جارہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کتنے لوگ عام جیلوں اور کتنے فوج کی تحویل میں ہیں؟ تفصیل دیں، آپ صحافیوں کی بات کرتے ہیں میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، صحافیوں کو رہائی ملنی چاہیے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کا کیس تو صرف یہ ہے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں، سمجھ نہیں آ رہی آپ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کیوں چیلنج کر رہے ہیں؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب انسداد دہشت گردی کی عدالت کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سننے کا اختیار نہیں تو وہ کسی فرد کو فوج کے حوالے کرسکتی ہے؟بعدازاں سپریم کورٹ ا?ف پاکستان نے کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کسی کو اس بنچ پر اعتراض ہے تو پہلے بتا دے، درخواست گزار اعتزاز احسن نے کہا کہ کسی کو بھی اس بنچ کی تشکیل پر اعتراض نہیں، اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں، بعدازاں پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کر دیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کو بھی مدنظر رکھا جائے، چھٹیوں کی وجہ سے ججز مختلف رجسٹریوں میں بیٹھیں گے، وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ میرے کیس میں درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض عائد کیا گیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست میں ملٹری کورٹس کے سوا بھی بہت سی استدعائیں ایک ساتھ کی گئی ہیں، کوشش کریں کہ ملٹری کورٹس کے سوا دیگر استدعا کو واپس لے لیں، اس پر وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ملٹری کورٹس بنانے کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی بھی استدعا کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہم مقدمات میں ملٹری کورٹس کے معاملے پر فوکس کر رہے ہیں، ہم آپس میں مشاورت کر کے بتائیں گے کہ آپ کو الگ سننا ہے یا اسی کیس میں سنیں گے۔دوران سماعت لطیف کھوسہ نے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کا حوالہ دیا جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میرے خیال میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کا نوٹی فکیشن واپس ہو گیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درست ہے۔سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 15 مئی کو کور کمانڈر میٹنگ میں کہا گیا 9 مئی کے واقعات کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، فارمیشن کانفرنس کا بیان بھی موجود ہے۔چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ پریس ریلیز میں یہ کہا گیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لیے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے اثبات میں سرہلایا اور کہا کہ جی پریس ریلیز میں یہ ہی کہا گیا ہے بعدازاں انہوں نے پریس ریلیز پڑھ کر سنا دی۔لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا بریگیڈیئر، جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ یہ جو آپ پڑھ رہے ہیں اس میں آئی ایس پی آر کا نام کہاں لکھا ہے؟وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ آئی ایس پی آر کا ہی جاری اعلامیہ ہے، کابینہ نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے کی توثیق کی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بیانات سے نکل کر اصل قانون کیا ہے وہ بھی بتا دیں۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست کر کے سویلینز کے کیسز فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا، جس نے بھی تنصیبات پر حملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے، جس نے جو جرم کیا ہے اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جو تمام مقدمات بنائے گئے انہیں سننے کا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کو پہلے ہی حاصل ہے۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا یہی مو¿قف ہے کہ کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں، 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں 9، 10 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ صرف حقائق میں رہیں، جو مقدمات درج ہوئے ان میں متعدد نام ہیں، مقدمات میں کچھ پولیس اہلکاروں کے نام کیوں شامل کیے گئے؟لطیف کھوسہ نے کہا کہ کیا کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کرسناو¿ں؟ اس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ درخواستوں کے ساتھ لگایا گیا ہے۔وکیل لطیف کھوسہ نے کور کمانڈر کانفرنس اور فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے پڑھ کر سنائے اور کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے، فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کرنل لیول کے اور اس کے اوپر کے افسران شریک ہوئے تھے، فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرنے کا فیصلہ خلاف آئین ہے، سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں بتائیں ایف آئی آر ہوئی؟ انسداد دہشت گردی عدالت میں کیا ہوا؟ ہمیں ایف آئی آر بتائیں کون سی دفعات لگائی گئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں حقائق تک محدود رکھیں، اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو یہ نہیں کہتا کہ چھوڑ دیا جائے، کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سب بیانات میں ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا؟لطیف کھوسہ نے انسداد دہشت گردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کردیئے اور کہا کہ ملک کی تمام ملٹری قیادت نے بیٹھ کر فیصلہ دے دیا ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔جسٹس منصور نے کہا کہ کیا یہ دستاویز ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں؟ لطیف کھوسہ نے کہا آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، فارمیشن کمانڈرز نے کہہ دیا ناقابل تردید شواہد ہیں تو ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟ 7 جون کو فارمیشن کمانڈر کا اعلامیہ آیا، فارمیشن کمانڈر میں کرنل سے لے کر سب آتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، فارمیشن کمانڈرز اعلامیے میں ٹرائل شروع کرنے کا کہا گیا ہے اس لیے عدالت سے حکم امتناع دینے کی استدعا کی۔جسٹس منصور نے کہا کہ یہ اعلامیہ آپ نے کہاں سے لیا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ دونوں اعلامیے آئی ایس پی آر کی ویب سائیٹ سے لیے، دونوں اعلامیوں پر کابینہ نے بھی مہر ثبت کردی ہے تو فئیر ٹرائل کہاں ہو گا؟ 9 مئی کے واقعہ کی یقیناً کوئی وضاحت نہیں، صرف جناح ہاوس یا کور کمانڈر ہاو¿س ہی نہیں میرے گھر پر حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔جسٹس منصور نے کہا کہ آپ نے اعلامیے بتا دئیے اب قانون بتادیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ لاہور، ملتان، راولپنڈی سے لوگوں کو ملٹری ٹرائل کے لیے حوالے کیا گیا، حملہ آوروں سے میری کوئی ہمدردی نہیں، مجھے ساتھی کہہ رہے ہیں کور کمانڈر ہاوس کو جناح ہاو¿س نہ کہیں، میں نے بھی جناح ہاو¿س کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔انہوں ںے کہا کہ مقدمات قتل، اقدام قتل کی دفعات کے تحت درج کیے گئے، 9 سے 10 ہزار افراد انہی مقدمات کے تحت گرفتار کیے گئے، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات کا آرمی ایکٹ سے تعلق بنتا نہیں ہے۔