اسلام آباد(کورٹ رپورٹر ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کےخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے 7رکنی نیا بینچ بھی تشکیل دےدیا جبکہ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میں اس بینچ کو ”بینچ“تصور نہیں کرتا،جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا،پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، بینچ سے اٹھ رہا ہوں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا،یہ عدالت ہی نہیں، جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہر بینچ غیرقانونی ہے، آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنےکا حلف اٹھایا ہے۔ جمعرات کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیابینچ میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی بینچ کا حصہ بنایا گیاجبکہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی بینچ کا حصہ تھے۔سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، عدالت کو اختیار سماعت آئین کا آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا۔ انہوںنے کہاکہ تعجب ہوا کہ گزشتہ رات8 بجے کازلسٹ میں میرا نام آیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے۔ کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13اپریل کو سپریم کورٹ کے9رکنی بینچ نے حکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی۔ سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔انہوںنے کہاکہ اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بینچ میں سماعت کےلئے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل184/3 میں رولزبنائے جائیں، اس کے بعد تعجب دکھ اور صدمہ ہوا کہ 31مارچ کو عشرت علی صاحب نے سرکلر جاری کیا، عشرت علی صاحب نے 31مارچ کے سرکلرمیں کہا کہ سپریم کورٹ کے 15 مارچ کے حکم کو نظر انداز کریں، یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی؟ پھرسپریم کورٹ نے6 ممبر بینچ بنا کر سرکلر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا، میرے دوست یقینا مجھ سے قابل ہیں تاہم میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اس 6 ممبر بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریرکیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کے بعد ہٹادیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو پوچھا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں؟ بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنادیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق، کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پربینچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جاسکتا ہے معطل نہیں کیا جاسکتا، مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا۔نامزد چیف جسٹس نے کہاکہ چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو لکھا کہ نوٹ اپنے تمام کولیگز کو بھی بھیجا، میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کرکے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی، آج کازلسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کردی گئی، میں اس بینچ کو ”بینچ“تصور نہیں کرتا، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، میرا موقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔انہوںنے کہاکہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، بینچ سے اٹھ رہا ہوں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں، سب سے معذرت چاہتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ رہا ہوں،کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔اس موقع پر نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتا ہوں، اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کردیتے ہیں تو اس کیس میں اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے۔جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔درخواست گزار اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ کیس سن لیجیے، میری استدعا ہے قاضی صاحب سے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بار میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کردوں۔اعتزاز احسن نے کہا کہ گھر کے تحفظ کےلئے کیس سن لیجیے، آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں، آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں، اگر میں اتفاق بھی کروں تو کہوں گا آپ بینچ میں بیٹھ جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ بڑے قانون دان اور سینئر ہیں، آپ کہتے ہیں میں اس بار اپنا حلف توڑدوں؟عتزاز احسن نے کہا کہ آپ کا موقف درست ہے لیکن یہ ایک گھر کی مانند ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اعتزاز صاحب یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے، میں آئین اور قانون کے سائے میں بیٹھ کر فیصلے کرتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ نہیں رہا، یہ عدالت ہی نہیں، جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہر بینچ غیرقانونی ہے، آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنےکا حلف اٹھایا ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز صاحب ایسا نہ کریں، عدالت کے ڈیکورم کا خیال کریں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترامیم کر رہے ہیں، ہمارے لیے تمام فاضل جج صاحبان کی عزت و احترام ہے، ہم نے جو کیا آئین کے مطابق کیا، چاہتے ہیں فیصلے حق اور انصاف کے مطابق ہوں، چاہتے ہیں فیصلے مخلوق خدا کی خاطر ہوں، دو معزز سینئر ججز نے اعتراض کیا ہے، ممکن ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہوجائے، اس عدالت کی روایت کے مطابق 2 سینئر ججز کے اعتراض کے بعد تکرار نہ کریں، آپ کےکیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بینچ آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا ہے، یہاں ہم مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد بینچ اٹھ کر چلا گیا۔بعد ازاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کےلئے7رکنی بینچ تشکیل دےدیا، اعتراض کرنے والے دونوں جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورجسٹس سردار طارق مسعود بینچ میں شامل نہیں۔اس بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرائے جانے کے بعد دستخط کےلئے صدر کو بھیجا گیا تھا۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سو موٹو نوٹس لینےکا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔بل کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائےگا جبکہ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا۔آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر3 یا اس سے زائد ججزکا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہو گا جب کہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکے گی، دائر اپیل 14 روز میں سماعت کے لیے مقرر ہوگی، زیر التوا کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا، فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کے لیے درخواست دینے کے 14 روزکے اندر کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔گزشتہ روز سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواست وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے دائر کی تھی جس میں وزارت قانون، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اوربلوچستان کی صوبائی حکومتوں کوبھی فریق بنایا گیا۔