سرینگر(نمائندہ خصوصی)
غیرقانونی طور پر بھارت کے زیرقبضہ جموں کشمیر میں خواتین قابض بھارتی فورسز کی بربریت کا سب سے زیادہ شکار ہیں کیونکہ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو دبانے کے لیے جنسی تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آج "تنازعات میں جنسی تشدد کے خاتمے” کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے مقبوضہ علاقے میں گزشتہ 34 سال کے دوران 11 ہزار 259 سے زائد خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں کشمیر میں جان بوجھ کر خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ کشمیریوں کی تذلیل کی جائے اور اُنہیں خوفزدہ کیا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کنن پوش پورہ میں اجتماعی عصمت دری ، شوپیان میں عصمت دری اور دوہرا قتل اور کٹھوعہ میں ایک کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل مقبوضہ علاقے میں تعینات بھارتی فورسز کے سفاکانہ چہرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے 23 فروری 1991ء کی رات کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران 100 کے قریب خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی۔ بھارتی فورسز نے 29 مئی 2009ء کو ضلع شوپیاں میں دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کو اغواء کرکے اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا اور بعد میں دورانِ حراست قتل کردیا۔ان کی لاشیں اگلی صبح علاقے میں ایک ندی سے برآمد ہوئیں۔جنوری 2018ء میں جموں کے علاقے کٹھوعہ میں ایک 8 سالہ مسلم بچی آصفہ بانو کو بھارتی پولیس اہلکاروں اور فرقہ پرست ہندوئوں نے اغواء کرکے بار بار اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اب تک مقبوضہ علاقے میں ایسے گھنائونے جرائم میں ملوث کسی بھی بھارتی فوجی یا پولیس اہلکار کو سزا نہیں دی گئی۔رپورٹ کے مطابق دو درجن سے زائد کشمیری خواتین کو جیلوں میں غیرقانونی نظربندی اور ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کشمیری کنن پوش پورہ میں اجتماعی عصمت دری کے المناک سانحے سمیت مقبوضہ جموں کشمیر میں اسی طرح کے کئی دیگر غیر انسانی واقعات کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ رپورٹ میں خواتین کے حقوق کی عالمی تنظیموں پر زور دیا گیاکہ وہ کشمیری خواتین کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں۔