یہ خیال میرے لیے خیال نہیں بنتا ، یہ حقیقت کی ایسی ڈوریاں ہیں جس پر لٹک کر میں کہیں بھی جا سکتی ہوں ۔یہ کہیں بھی جانا کبھی کبھی تو بہت آسان ہوتا ہے۔ اس خیال کے ساتھ کہ جب حقیقت بنتا یے تو میرے دماغ کے کسی کونے میں بہت صاف شفاف نظر آتا ہے۔اس خیال کے ساتھ کہ وہ خیال نہیں ہوتا بلکہ حقیقت کا ایسا حصہ بن جاتا ہے جس میں چہل قدمی کرتے ہوئے بہت اچھا لگتا ہے۔میں آواز دیتی ہوں اسے کہ آصف تم کہاں پو۔؟
اگر تم جواب دے دیتے ہو تو خیالوں کے تانے بانے میرے چاروں طرف اچھلنے کودنے لگتے ہیں اور مچل مچل کر کہتے ہیں کہ عذرا یہ بھی لکھو۔۔۔۔؟
تمہیں یاد ہے کہ میں تم سے ملنے آتا تھا اور تمہاری کانا پھوسی بھی سنتا ہے اور تم میری کانا پھوسی بھی سنتی تھیں تو کتنا مزہ آتا تھا۔اور تم نے یہ بھی سنا کہ کون کون مجھ سے خفا ہوگیا ۔اور کون کون مجھ سے خوش ہے۔
یہی ہوتا تھا ہمیشہ جب خیالوں کی پوٹلی تم لے کر آتے تھے اور اسے میرے سامنے کھول دیتے تھے۔ اور ہاں عذرا یہ بھی تو سنو کہ میں تمہیں یہ بتا رہا تھا کہ آج میں خوش ہوں۔
لوگوں نے میری نظمیں بھی پڑھی ہیں،نثر بھی پڑھی ہے،،،،،،،کیا تم نے پڑھی ہیں۔۔؟جب میں یہ کہتا تھا کہ میں نے تماری فلاں نظم پڑھی ہے اور اسے ڈیزی تک بھی پہنچا دیا ہے ۔۔۔۔تم اکثر بھول جاتی ہو۔۔۔۔ جب میں کسی مصنف کا نام لیتا ہوں کہ میں اس کی ٹرانسلیشن کسی کو بھیجتا تھا تو تم کتنی نہال ہو جاتی تھی۔
یہ تو مجھے معلوم تھا کہ یہ تماری کارکردگی کا حصہ تھا کہ جب میں کوئی کہانی لکھتی یا کوئی افسانہ لکھتی تو میرا پہلا خیال یہی ہوتا کہ تم آجاؤ میرے پاس اور میری کہانی یا افسانے کو سنو۔یہ اکثر ہوتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو میرے ارادے میں شامل ہوتا ہے۔۔
تمہیں یاد ہیں میری وہ کہانیاں جو صبح کے پانچ بجے میں اکثر لکھتی تھی اور بلک کر تمہیں آواز دیتی تھی کہ آصف کہاں ہو؟ جلدی آؤ اور میری کہانی تو سنو۔۔۔میں نے آج ہی لکھی ہے اور تم دوڑ کر آجاتے تھے۔اور وہ کہانی سن کر مجھے اس طرح دیکھتے جیسے وہ کہانی نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک ایسا سمندر ہوتا جس میں تم غوطہ لگا کر ڈوبے بغیر میری طرف آجاتے ۔تم کہانی پڑھ کر مجھے ایسے دیکھتے جیسے ابھی جیب سے نکال کر مجھے کوئی انعام دو گے ۔میں وہ انعام لے بھی لیتی اگرچہ تم مجھ سے اتنی دور ہوتے۔۔
اب میں سوچتی ہوں کہ اب میں ہاتھ پھیلا کر تمہیں پکڑنے کو دوڑتی ہوں لیکن بہت مشکل ہوتا ہے مجھے تم تک پہنچنا۔پھر کبھی کہیں میں کہانی کو پڑھتی ہوئی دیکھتی ہوں اپنی آنکھوں سے کہ میں پڑھ بھی رہی تھی اور اتنا خوش ہوتی تھی کہ یہ کہانی میری ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ میں شور مچا کر لوگوں سے کہوں کہ آصف نے میری کہانی ڈیزی کو بھیجی ہے۔مجھے بڑا اچھا لگتا ہے۔اپنی یہ آواز بھی مجھے بہت اچھی لگتی ہے جو میرے کانوں میں گونجتی ہے۔مجھے ییہ معلوم ہے کہ آفس بھی سنتا ہوگا جن لفظوں میں میں خود کو داد دیتی ہوں ان کو سمیٹ کر مجھھے بہت اچھا لگتا ہے۔مجھے یاد آتی ہیں وہ سب آوازیں جو میں نے آصف کی طرف بھیجی تھیں۔پھر مجھے یاد آتا کہ ایسا کون کرتا ہے۔۔۔ کوئی نہیں۔۔۔آصف کم از کم میرے لیے تو میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ تم ایک ایسے شخص ہو کہ جس نے اپنے اوپر وہ محنت بھی لاد لی تھی جو تم دوسروں کے لیے بھی لاد لیتے تھے۔تمہاری آنکھوں میں جو غور و فکر ہوتا تھا اس سے مجھے بہت صاف پتہ چلتا کہ یہ آنکھیں تو بہت گہری ہیں اور وہ کیا کیا سوچتی ہیں۔؟
اور جب میں تمہاری ان سوچتی ہوئی آنکھوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میں یہ سوال کروں کہ یہ شخص کہاں گیا۔۔۔ابھی ہمارے گھر آتا کیوں نہیں۔؟اور وہ خوش نما باتیں کیوں نہیں کرتا جو مجھے ہنساتی تھیں اور مجھے کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور کرتی تھیں۔
وہ بھی تو بہت عجیب تھا اپنے ہر آنے جانے پر مجھ سے کہتا تھا کہ عذرا مجھے بہت اچھا لگا کہ تمہاری سوچ کا یہ حصہ مجھے ایسا لگتا تھا کہ مجھے دکھانے کے لیے تم نے لکھا ہے۔اور جب میں اس کی کوئی بھی تحریر پڑھتی تھی تو بےشمار داد کے ساتھ اس سے کہتی تھی جیو آصف خوب جیو۔
اور اس کے بعد خاموشی اور صرف خاموشی میرے ہونٹوں کو پکڑ لیتی تھی۔میری آواز نہیں نکلتی تھی۔۔۔تم کہاں ہو آصف،کیا میں تمہیں آواز دوں۔۔؟کیا تم میری آواز سن لو گے۔آج میں نے دال اور بھنڈی بنائی ہے۔تمہیں بہت اچھی لگتی تھی۔