اسلام آباد(شِنہوا)پاکستان کے شہر ملتان کے ایک کسان حسن رضا اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے ایم این ایس زرعی یونیورسٹی کے عملے کی طرف سے مقامی کھیتوں میں چین کی جانب سے عطیہ کردہ مشین (کارن کوب)سے مکئی کے بھٹے چننے کا عملی مظاہرہ دیکھا۔
رضا نے شِنہوا کو بتایا کہ نئی متعارف کرائی گئی مشین کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے میں مدد دے گی کیونکہ یہ بیجوں کی بجائے پورے بھٹے کو چنتی ہے، جس سے کسانوں کو اپنی فصل کی کٹائی مقررہ وقت سے پہلے کرنے کا موقع ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مکئی کی فصل کو تباہی کا سامنا ہے کیونکہ پاکستان میں مقامی مشینیں مکئی کے دانے چنتی ہیں جس کے لیے کسانوں کو اناج کے مکمل خشک ہونے تک انتظار کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے گرمی یا غیر متوقع موسمی حالات کے نتیجے میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے فصل کے نقصان کا خطرہ رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کی اس نئی مشین کے ساتھ، کاشتکار اب پورے بھٹے کو الگ کرسکتے ہیں اور اسے ناموافق موسمی حالات پیدا ہونے سے پہلے گھر کے اندر خشک کر سکتے ہیں۔اس سے فصل کی بچت کے ساتھ کام بھی آسان ہوسکتا ہے۔
شعبہ زراعت میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) تعاون کے تحت چین کے تیانجن ماڈرن ووکیشنل ٹیکنالوجی کالج نے ایم این ایس یونیورسٹی آف ایگریکلچر ملتان کے ساتھ مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کیے جس کا مقصد پاکستان کے زرعی شعبہ میں ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مقامی لوگوں کو جدید کاشتکاری کی تکنیکوں کو اپنانے میں مہارت فراہم کرنا ہے۔
ایم او یو کے تحت چین سے کارن کوب چننے والے کے پرزہ جات پاکستان کو عطیہ کیے گئے اور اس مشین کو لبان ورکشاپ ملتان میں اسمبل کیا گیا جو پنجاب ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی اور تیانجن ماڈرن ووکیشنل ٹیکنالوجی کالج کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
ایم این ایس-یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے زرعی انجینئر اور اسسٹنٹ پروفیسر سرفراز ہاشم نے شِنہوا کو بتایا کہ مشین کی قیمت 55ہزار ڈالر تھی، لیکن چینی یونیورسٹی نے پاکستان کو زراعت کو جدید بنانے کے لیے اسے مفت فراہم کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے طلباء اور انجینئرز نے مشین کو چلانے اور اسمبل کرنے کے لیے دو ہفتے کی ورچوئل ٹریننگ لی ۔ کچھ طلباء اور انجینئرز زرعی مشینوں اور کاشتکاری کی تکنیکوں کے بارے میں مزید جاننے کے لیے چین جائیں گے۔
ہاشم نے کہا کہ مشین کے عملی مظاہرے کے بعد، اسے کسانوں کو کم قیمت پر دیا جائے گا جو اسے یونیورسٹی کے تکنیکی ماہرین کی نگرانی میں فصل کی کٹائی کے لیے استعمال کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کھیتوں میں عملی مظاہرے کا ردعمل بہت خوش آئند تھا اور کسان اس مشین سے واقعی متاثر ہوئے، زراعت کے کاروبار سے وابستہ لوگ اگلے مرحلے میں اسے درآمد کر کے ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس کے استعمال کو بڑھا سکتے ہیں جس سے مشین کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو جائے گا۔
پروفیسرسرفراز ہاشم نے کہا کہ مشین کے بارے میں سب سے اچھی چیز اس کی کارکردگی ہے کیونکہ یہ ایک ایکڑ زمین سے ایک گھنٹے میں مکئی کے بھٹے چن سکتی ہے، عام طور پر اس کام کو مکمل کرنے میں ایک مزدور کو 12 گھنٹے لگتے ہیں۔
پاکستان کے زرعی شعبے پر چین کی طرف سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ہاشم نے کہا کہ میکانائزیشن میں، چین کی جدید ٹیکنالوجی عروج پرہے اور اس کی پیداوار پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے تحت زرعی تعاون میں پاکستان میں چینی مشینوں کو متعارف کرانا ہماری بنیادی ضرورت ہے، جو پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ کے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کرے گی۔
ایم این ایس یونیورسٹی آف ایگریکلچر میں زراعت کے طالب علم سکندر رضا نے شِنہوا کو بتایا کہ وہ جدید زرعی تکنیکس حاصل کرنے کے لیے چین کا دورہ کرنے کے حوالے سے انتہائی پرجوش ہیں۔ اور وہ مقامی کسانوں کی زندگیوں کو بدلنے اور پاکستان میں زرعی ترقی کو فروغ دینے کے لیے جدید زرعی تکنیکس پر واپس آکر عملدرآمد کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین، جدید زراعت میں عالمی رہنما ہونے کے ناطے، پاکستان کے زرعی شعبے کی ترقی میں مدد کے لیے ضروری مدد اور علم کی منتقلی فراہم کر سکتا ہے۔
رضا نے کہا کہ زراعت کے جدید طریقوں جیسے کہ درست زراعت، ہائیڈروپونکس اور میکانائزیشن کو اپنانے سے، پاکستانی کسان پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور فصلوں کے نقصانات کو کم کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بہتر منافع کما سکتے ہیں۔