اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں کئی ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے، صرف دو وزارتوں کا گردشی قرضہ 4000ارب روپے ہے، اگر مستقل تبدیلی چاہتے ہیں تو نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری یا بند کرنا ہو گا، خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کی مٹی کی محبت سے سرشار ہیں، عمران خان کے کہنے پر ترسیلات زر بھجوانا بند نہیں کریں گے ، عدلیہ تھوک کے حساب سے حکم امتناعی نہ دے،عدلیہ ملک کے ساتھ حکم امتناعی کے نام پر جو کر رہی ہے اس کی خود احتسابی کرے جبکہ وفاقی وزیر انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو کوئی دوسرا ملک انسانی حقوق کا سبق نہ پڑھائے، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں مسلک کی بنیاد پر دہشت گردی میں کمی آئی ہے، پاکستان کی جیلوں میں 9 مئی کے واقعات میں گرفتار خواتین کی بے حرمتی کی باتیں ملک دشمن پھیلا رہے ہیں، انسانی حقوق کے قومی کمیشن کو اس حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی ہے۔بدھ کو قومی اسمبلی میں مالی سال2023-24 کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہاکہ 75 سال میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے، موجودہ معروضی حالات میں آئندہ وفاقی بجٹ میں عوام کو ہر ممکنہ سہولیات کی فراہمی کی کوشش کی گئی ہے، اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی ہے، ہمارے دہائیوں کی معاشی ابتری کا سلسلہ اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں عام آدمی کا سانس لینا مشکل ہے، ایک ایسا طبقہ ہے جسے ہر ممکنہ وسائل دستیاب ہیں، سود کی ادائیگی ہماری آمدن سے زیادہ ہے، ہمارے مسائل کی دیگر کے ساتھ دو بنیادی وجوہات ہیں جن کو سالوں اور دہائیوں میں حل نہیں کیا گیا، دو اداروں کا قرض ایک ہزار ارب سے زیادہ ہے، 86 ارب روپے صرف اس قرض پر سود ادا کیا جا رہا ہے، خسارے والے ادارے کی جلدی نجکاری ہو بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی حالات سے ہر کوئی آگاہ ہے، ہزاروں ارب روپے ایسے اداروں پر صرف کیا جا رہا ہے جس کا زندہ رہنا ممکن نہیں یہ ریاست کے خلاف جرم ہے، غربت مکاﺅ اداروں نے غربت نہیں مکائی لیکن چیف ایگزیکٹو اور چیف آپریٹنگ افسران 30 سے 35 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں اور انہوں نے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے، یہاں ایک لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آمدن کا بڑا ذریعہ ٹیکس محصولات ہیں، حال ہی میں ایک ادارے کی ایک سٹڈی آئی ہے جس نے پاکستان میں ٹیکس چوری کے اعداد و شمار دیئے ہیں، اس کے مطابق صرف ریئل اسٹیٹ میں 500 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے، تمباکو کے شعبے میں 240 ارب روپے، آٹو موبائل اور ٹائر 50 ارب روپے، آٹو لبریکینٹ 56 ارب روپے، فارماسوٹیکل 65 ارب روپے، چائے کی درآمد پر 45 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے، ریٹیل سیکٹر میں 2880 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، یارن میں 222 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، ہزاروں ارب روپے کے محصولات چوری کرنے والے ملک میں ریلیف کا بجٹ کیسے پیش ہو سکتا ہے، وزیر خزانہ نے اس کے باوجود ہمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیم دینے والے اعلی تعلیمی اداروں کے کئی سربراہان کرپشن کر کے اربوں روپے کے مالک بن چکے ہیں جبکہ اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد وہ حکم امتناع پر چل رہے ہیں، تجارتی تنظیموں میں بڑے بڑے سمگلر بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں ایک سال کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، عام آدمی معمولی جرم پر گرفتار ہے جبکہ بڑے ڈاکہ ڈالنے والے کھلے عام پھر رہے ہیں، ایسے لوگ شادیوں پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں، ایک سال میں ان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی تاہم ممکن نہیں ہو سکا، ایک مستحکم سیاسی حکومت ہی ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔