اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا انحصاردرآمدی ایندھن پر نہیں ہوگا ،موجودہ گورننس اور معیشت کا نظام چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ عوام کو سہولت فراہم نہیں کررہا،بجلی کی پیداوار کے لئے تھرکول کی تجارتی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔بدھ کو لیڈرز ان اسلام آباد بزنس سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں درآمدی کوئلہ ، آر ایل این جی اور تیل کو بجلی کی پیداوار سے باہر کرنا ہوگا، موجودہ گورننس اور معیشت کا نظام چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ عوام کو سہولت فراہم نہیں کررہا ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو کوئلہ اور قدرتی گیس جیسے سستے ایندھن سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ لگائے لیکن یوکرین اور روس کی جنگ سے کوئلہ 400 فیصد مہنگا ہوگیا جس سے توانائی کی پیداوار کے نئے نظام کو دھچکا لگا۔ انہوںنے کہاکہ جب یورپ کو گیس کی فراہمی ر ک گئی تو یورپ نے مارکیٹ میں دستیاب گیس خرید لی،پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے حکومت نے ایک بڑی ری تھنک کی کہ اب یہ درآمدی ایندھن پر نہیں ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کے پاس بجلی کی پیداوار کے پانچ ذرائع بچ گئے،شمسی اور ونڈ متبادل توانائی کے ذرائع ہیں مگر ان کے اپنے مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہائیڈل انرجی مکس میں ایک بڑا ذریعہ بن رہا ہے،ہماری حکومت آنے سے قبل گزشتہ سال 660 میگاواٹ بجلی تھرکے کوئلہ سے بن رہی تھی اب 2000 میگاواٹ تھر کول سے بجلی بن رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار کے لئے تھرکول کی تجارتی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ حکومت کے لئے بجلی کی پیداوارکےلئے پانچ زرائع مختص کئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ونڈ اور سولر کے لارج سکیل منصوبے لگائے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مقامی وسائل سے بجلی کی پیداوار کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں، روپے کی قدرمیں تیزی سے کمی کے باوجود ستمبر 2022 کے بعد سے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا۔ انہوںنے کہاکہ بجلی کے بیس ٹیرف کو اپنی جگہ رکھا ہے کیونکہ تھر کول سے بجلی نظام میں آنے لگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال سردیوں میں فیول چارجز منفی ر ہے اور صارفین کو پیسے واپس کئے ہیں۔ بجلی کی پیداوار میں ری تھنک کی پالیسی کو آئندہ حکومت جاری رکھے گی۔سال 2013 سے 2022 نے سکھایا ہے کہ جمہوریت کا پرانا طریقہ کار کام نہیں کررہا ہے، کیا اس کو باہر پھینک دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2013 کے بعد نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں بننے والی حکومتوں نے معیشت کے چار مسائل کو حل کیا۔ دہشت گردی ، کراچی میں امن قائم کیا، سی پیک کو لائے ، توانائی کی قلت پر قابو پایا، یہ کہا جائے کہ اس ملک میں جمہوریت نہیں چلتی ہے غلط ثابت ہوگئی ہے۔ انہوںنے کہاکہ سال 2013 سے 2016 میں آئی ایم ایف پروگرام مکمل ہوا، ہر سال افراط زر کم ہوا اور معاشی ترقی میں اضافہ ہوا۔ ہاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ افراط زر 2 فیصد تک گر گیا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2018 سے 2022 تک ہائیبرڈ رجیم کام نہیں کرسکی ،پاکستان کو اپنی فارن پالیسی کو ری تھینک کرنا ہوگا،دنیا بہت زیادہ تبدیل ہوچکی ہے،امریکا اور یورپی ملک افغانستان سے نکل گیے ہیں۔ چین اور مغرب کے درمیان تناو بڑھ رہا ہے۔