اسلام آباد( نمائندہ خصوصی ) پاکستان نے سرینگر میں جی 20 اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر چین ، سعودی عرب ، ترکیہ ، مصر اور اومان کی شاندار الفاظ میں تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ممالک بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بالادستی کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں جی 20 ٹورازم ورکنگ گروپ کے اجلاس کی میزبانی کرنے کے بھارتی اقدام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، یہ تنازعہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے اس پس منظر میں بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں ، اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور بین الاقوامی قانون کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اپنے غیر قانونی طور پر زیرتسلط جموں کشمیر میں اس اجلاس کی میزبانی کی۔ترجمان نے کہا کہ جی 20 اجلاس کا متنازع علاقے میں انعقاد بھارت کے غیر قانونی طور پر زیرتسلط جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ غداری ہے ، گزشتہ سات دہائیوں سے وہ اس انتظار میں ہیں کہ عالمی برادری ان کی حالتِ زار پر توجہ دے اور قبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی آبادی کو یرغمال بنا کر اور انہیں ان کے حقوق اور آزادی سے محروم کر کے سیاحت اور ترقی کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ سرینگر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد سے بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے اور کشمیری عوام پر ظلم و ستم کی حقیقت کو نہیں چھپا سکتا۔ اُنہوں نے بھارت کی جانب سے کشمیر میں حالات معمول پر آنے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے غیر قانونی طور پر زیرتسلط جموں کشمیر کرہ ارض پر سب سے زیادہ جمائو والے فوجی علاقوں میں سے ایک ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سرینگر اجلاس کیلئے سخت سکیورٹی اقدامات، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور مقامی آبادی کو ہراساں کرنا نوآبادیاتی علاقے میں معمول کے حالات کے دعووں کی تردید کرتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ بھارت اپنے غیر قانونی طور پر زیرتسلط جموں کشمیر میں حالات کو معمول پر لانے کا اپنا بیانیہ گھڑنے میں واضح طور پر ناکام رہا ہے ، جیسا کہ سرینگر اجلاس میں انتہائی کم نمائندگی اور متعدد اہم مدعوئین کی غیر موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے۔انہوں نے سرینگر اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر عوامی جمہوریہ چین، مملکت سعودی عرب، جمہوریہ ترکیہ، عرب جمہوریہ مصر اور سلطنت اومان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بالادستی کے لیے کھڑے ہیں۔ ترجمان نے واضح کیا کہ جی 20 کا قیام بنیادی طور پر عالمی مالیاتی اور اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا گیا تھا، بھارت نے مقبوضہ علاقے میں اس اجلاس کا انعقاد کرکے ایک اور بین الاقوامی فورم پر سیاست کی ہے اور وہ اپنے مفاداتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے موجودہ چیئر کی حیثیت سے اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے بجائے بھارت کو بین الاقوامی میڈیا اور آزاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنے غیرقانونی طور پر زیرتسلط جموں و کشمیر کی صورتحال پر رپورٹ کرنے کیلئے بلاروک ٹوک رسائی فراہم کرنی چاہیے اور وہاں جاری جبر کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے کمیشن آف انکوائری کے قیام سے اتفاق کرنا چاہیے اور کشمیر کے لوگوں کے لیے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کرانا چاہیے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا خود تعین کر سکیں۔ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی ان کے ناقابلِ تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کی منصفانہ جدوجہد کی اخلاقی ، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ 22 مئی کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا، وہ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرنے والے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کشمیری عوام کی ہمت کو سلام پیش کیا اور شہدا کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کنٹرول لائن کے قریب رہنے والی آبادی سے مخلصانہ ہمدردی کا اظہار اور کشمیری عوام کے ساتھ پاکستان کی دیرینہ وابستگی اور یکجہتی کا اعادہ کیا۔