کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی اسکیم 42 ہاکس بے میں بورڈ آف ریونیو اور ڈپٹی کمشنر کی غیر قانون طور پر اربوں روپے کی زمینوں کی الاٹمنٹ کرنے کا گھناونا کاروبار جاری ہے کچی آبادیز، گوٹھ کے علاوہ K-128کے نام پر پانچ ہزار ایکٹرز سے زائد زمین ٹھکانے لگانے کی تصدیق حکام کررہے ہے جن میں گودامز،ویرہاوسزرہائشی اسکیم میں غیر قانونی الاٹ ہوچکا ہے،وفاقی وزیر قادر پیٹل نے سکند رآباد کا کیس سپریم کورٹ میں اب تک زیر سماعت ہے، حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب 2012ء الا ٹمنٹ پر پابندی کےدوران اسکیم کی 635 ایکٹر اراضی کو کراچی سسٹم کے تحت ٹھکانے لگانے کی تصدیق ہو گئی ہے۔اتھارٹی ریکارڈ کے مطابق 40 سال قبل اسکیم 42،20900 ایکٹر پر مشتمل تھی جن میں 9450 ایکٹر اراضی اسکیم شروع ہونے سے قبل ہی محروم کرتے ہوئے اسکیم 42،کو 11450 ایکٹر اراضی 24 جولائی 1984ء میں ا لاٹ کر دی گئی تھی،اب 2023ء میں اسکیم کو 6243 ایکٹر اراضی الاٹ کر کے مزید 5207 ایکٹر اراضی سے محروم کردی گئی ہے۔ یہ اپیل اور K128-iiکی غیر قانونی الاٹمنٹ کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، سندھ حکومت نے اسکیم کی بانڈری سے باہر پانچ مختلف مقامات پر یہ زمین الاٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم یہ زمین نئے نرخ پر الاٹ کی جائے گی،لیکن دوسری جانب ڈپٹی کمشنر کیماڑی کی آشیر باد سےاسکیم کے بعض بلاک کی زمین پر قبضہ جمانے اور الاٹیز کو اپنے قیمتی پلاٹ سے محروم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے صحافیوں کو پلاٹس ایک معاہدے کے تحت دیا تھا،جس میں 20 فیصد رقم صحافی ادا کریں گے اور 80 فیصد پلاٹس کی مجموعی رقم سندھ حکومت ادا کرنے پر الاٹ کی جائے گی۔جس میں 1283 صحافیوں کے پلاٹ شامل ہیں۔ بلاک تھری میں 522، تھری اے میں 194،ٹو میں 256 اوربلاک 68 میں 210 پلاٹ الاٹ کیئے گئے ہیں۔اس ضمن میں اب تک سندھ حکومت پر 85 کروڑ روپے میں 70 کروڑ روپے کی رقم واجب الادا ہے,جبکہ صرف 15 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی ہے۔رقم نہ دینے پر اسکیم میں ترقیاتی کام کا اب تک آغاز نہ ہوسکا ہے۔صحافیوں کے ڈھڑے بندی کی وجہ سے کراچی کے صحافی 25 سال سے پلاٹس سے محروم ہیں،اب شنید ہے کہ الاٹمنٹ و دیگر مالکانہ حقوق دینے کی تیاری کی جاری ہے۔ صحافی 16 کروڑ 30 روپے کی رقم میں سے 20 فیصد کے حساب سے اب تک 90 ملین دے چکے ہیں اب صر ف 72 ملین روپے واجب الادا ہیں جبکہ ساحل سمندر کے قریب بلاک 14 کی اراضی کسی اور کو الاٹ کردی گئی ہے۔2-A بلاک پر پہلے ہی قبضۃ ہوچکا ہے، بلاک 6،9 اور 10 کو لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو دے دی گئی ہے۔ 24 بلاک میں ریتی بجری نکالنے اور بلاک 23،27،28 اور 28-A نالے کی گزر گابوں کی وجہ سے ہزاروں الاٹیز اپنے قیمتی پلاٹ سے پہلے ہی محروم ہوچکے ہیں۔ بلاک 42,،43اور44 میں الاٹیز کو پہلے ہی قبضہ دینے اور تعمیرات سے روک دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت 500 گھر بنانے کے لئے زمین الاٹ کی گئی تھی، مبینہ طور پر ڈپٹی کمشنر کیماڑی اور غربی نے می بھگت سے 635 ایکٹر اراضی اسکیم ہاکس بے کے زمین پابندی کےدوران الاٹ کرنے کی تصدیق کی ہے،اور 169ایکٹر حال ہی میں کی گئی ہےجبکہ 2012ء میں ڈبل الاٹمنٹ اور مجاز اتھارٹی کے بغیر اسکیم کے مختلف بلاک میں 7600 پلاٹس کی الاٹمنٹ منسوخ کردی گئی ہے،جن میں سابق ناظم کراچی سید مصطفی کمال کے ساتھ صوبائی وزراء کے علاوہ افسران کی بڑی تعداد نے پلاٹ الاٹ کیئے تھے۔ہاکس بے اسکیم 42 کے الاٹیز اپنی جائیدادوں کے منتظر ہیں،LDAکی اسکیم 42 میں ہونے سے ہزاروں الاٹیز کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈ آف ریونیو کے افسران نے ایک پلان کے تحت اس اسکیم کی 2010ء میں الاٹمنٹ منسوخ کردی ہے تاکہ اپنے گھناونے عزائم کو پایا تکمیل پہنچا سکیں۔ایک طرف اسکیم کی تمام سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں جبکہ دوسری جانب زمین کے الاٹمنٹ میں تیزی آگئی ہے کیونکہ نیب کے دانت نکالنے کے بعد ریوینو افسران کی بدعنوانی کے ساتھ ناجائز اختیارات کے استعمال کے خلاف تحقیقات کرنے والا کوئی ادارہ نہیں رہا اس لیئے یہ افسران اب کھلے عام زمینوں کی الاٹمنٹ کا دھندا کھلے عام کر رہے ہیں،اب اربوں روپے کی لوٹ مار کا کوئی جوابدہ بھی نہیں ہے،جبکہLDA کے سابق ڈائریکٹر جنرل آغا مقصود عباس نے معاملے کو بورڈ آف ریوینو اور سندھ حکومت سے حل کرنے کے بجائے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا،جس کا فیصلہ LDA کے خلاف آیا تھا۔سپریم کورٹ میں LDA کی یہ اپیل دو سال چلنے کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے فیصلہ اپنی نگرانی میں کیا تھا۔آج بھی سپریم کورٹ میں ریو پیٹشن زیرالتو ء ہے۔ لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کی ہاکس بے اسکیم 42 میں حال ہی میں دریافت ہونے والی میگا کرپشن پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت نگران اداروں کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔اس اسکیم کے الاٹیوں کے اربوں روپے پر بیٹھے بدعنوان عناصر کو پکڑنا ضروری ہے جو طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اپنے پلاٹوں کا قبضہ حاصل نہیں کر سکے۔ 11,450 ایکڑ ترقیاتی رقبہ (دیہہ لال بکھر اور دیہہ مواچھ) میں 3,985 ایکڑ مختص شامل ہیں۔ کے ایم سی، کے پی ٹی، سنٹرل بی او آر، دیہات وغیرہ۔ اسکیم کو کے ڈی اے سے ایل ڈی اے کو 10-01-1996 کو منتقل کیا گیا تھاایل ڈی اے ایکٹ-1993 کے تحت اب تک ایل ڈی اے اور کے ڈی اے دونوں نے تقریباً 54,000 رہائشیوں کی منصوبہ بندی کی ہے۔ ان تمام کوششوں کے بعد، وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ اسکیم 15 سے 20 سال زائد عرصے تک غیر فعال رہی۔اور LDA نے 9000 رہائشہ آج تک مختلف زمینوں کے 54,380 منصوبہ بند رہائشی پلاٹوں کی بیلٹ کی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل ڈی اے کی طرف سے تیار کردہ فنڈز 2008 (240 اور 400 مربع گز) میں 9000 رہائشی پلاٹوں کی آخری بیلیٹنگ کے سات ترقیاتی کاموں کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے اسکیم 42 کی منصوبہ بندی، ڈیزائن اور نگرانی (ترقیاتی کام) کے لیے، LDA نے ”عثمانی اینڈ کمپنی (پرائیویٹ لمیٹڈ”) کی خدمات حاصل کی ہیں جو ٹکنیکی مشیر کے طور پر مئی 2008 سے کام کر رہے ہیں،تاہم ہاکس بے اسکیم 42 میں ترقیاتی کام یا تو صفر ہے یا قابل رحم ہے۔ ایل ڈی اے مطلوبہ ترقیاتی کام شروع کرنے میں بری طرح ناکام ہونے کی وجہ سے ہزاروں الاٹیز جنہوں نے اپنی قسطیں پہلے ہی ادا کر دی ہیں اب بھی اپنے پلاٹوں کی ملکیت سے محروم ہیں۔ ایل ڈی اے صرف اپنی بیوروکریسی اور باسز کے شاہی اخراجات پورے کرنے کے لیے الاٹیوں کی جمع پونجی پر بھاری سود کما رہی ہے، جن میں اکثریت موجودہ صوبائی حکمرانوں کے ہیں اور کئی افسران مبینہ طور پر ان منافع بخش عہدوں پر اپنی سیاسی وابستگیوں کی بنیادوں پر تعینات ہیں۔ بہت سے شہریوں کا خیال ہے کہ ہاکس بے اسکیم 42 ایک بڑا اسکینڈل ہے جیسا کہ فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے اسکینڈل جس میں مبینہ طور پر لطیف کھوسہ کے فرنٹ مین عبدالبر نے اربوں روپے کی کرپشن کی لیکن طاقتور حلقوں کی آشیر باد کی وجہ سے آج تک کسی بھی قسم کی انکوائری سے محفوظ ہیں۔اسی طرح سندھ کے بدنام زمانہ بدعنوان بادشاہوں اور رانیوں کے کچھ لنکس کے ساتھ ساتھ لیاری گینگ کے جرائم کا باآسانی سراغ لگایا جا سکتا ہے بشرط ہے کہ مناسب اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں.اس ضمن میں الاٹیوں کا مطالبہ ہے کہ ایل ڈی اے کو فوری طور پر ہاکس بے اسکیم 42 میں ترقیاتی سرگرمیاں شروع کرنی چاہئیں اور پلاٹوں کا قبضہ ان کے حقیقی الاٹیوں کے حوالے کرنے کی تاریخ کا اعلان کرنا چاہیے اسی صورت میں کسی حد تک زمینوں کی کرپشن کو روکا جا سکتا ہے۔