کراچی ( نمائندہ خصوصی ) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ یونیسف کےماتحت MICSسروے کا بچوں کی اموات میں کمی دکھانا ہماری حکومت کی کاوشوں کا ثبوت ہے، سندھ کی تمام اسپتالوں کو ٹیلی میڈیسن سسٹم سے جوڑا جارہا ہے، سندھ کا عوام کا اعتماد ہم پر ہے کوئی اور جماعت اس طرح کی خدمت نہیں کر رہی ہے۔ یہ بات انھوں نے سول اسپتال کراچی کے دورہ کے دوران چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کی زیر اہتمام ایک پروگرام میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
اسپتال کا دورہ: وزیراعلیٰ سندھ نے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ایک لاکھ مریضوں کی صحتیابی پر سول اسپتال کراچی کا دورہ کیا جہاں چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کی طرف سے ایک پروگرام منعقد کیا گیا، وزیراعلیٰ سندھ نے سول اسپتال میں ٹیلی میڈیسن اور بچوں کے ایمرجنسی کے وارڈز کا معائنہ کیا ،وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی سے شہید بینظیرآباد اسپتال کے oatiebts کی ٹیلی میڈیسن سینٹر کراچی میں کی گئی مشاورت کو براہ راست دیکھا جہاں صوبے کے مختلف اسپتال ،کراچی کے سینٹر میں موجود ڈاکٹرز سے مشاورت کرتے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ یہ سہولت صرف بچوں کیلئے ہے جسکو چائلڈ لائیف فاؤنڈیشن نے قائم کیا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ یونیسف کی حمایت یافتہ MICS سروے (2021) نے سندھ میں بچوں کی شرح اموات سے متعلق رپورٹ شایع ہوئی ہے جس میں سندھ کی طبی سہولیت مہیا کرنے سے بچوں میں شرح اموات میں کمی آئی ہے۔ بتایا گیا کہ پہلے 1000بچوں پر 104 بچے انتقال کرجاتے تھے، اب یہ نمبر کم ہوکر 40 تک پہنچ گیا ہے۔2018 میں اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے سندھ کو ایشیا میں شراکت داری میں چھٹے نمبر پر رکھا، بچوں کی ہنگامی دیکھ بھال کو بہتر بنانے کیلئے چائلڈ لائف کے ساتھ شراکت داری 2010 میں شروع ہوئی اور2018میں کراچی میں 24 گھنٹے مفت ایمرجنسی سروسز دی کہ ہر بچہ 30 منٹ سے زیادہ دوری پر نہیں ہونا چاہئے۔ 2019 میں سندھ کے اسپتالوں میں نو ERs (کراچی، حیدرآباد، بینظیر آباد، لاڑکانہ، سکھر) کا قیام ہوا۔ بتایا گیا کہ تقریباً سالانہ 9لاکھ بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ٹیلی میڈیسن سیٹلائٹ سینٹرز DHQs/THQs میں سروس کو بہتر بنایا گیا، آبادی کا 2/3 حصہ بڑے شہروں سے باہر رہتا ہے، 2020 میں صحت کو سہولیات کو سندھ کے تمام اضلاع تک بڑھا دیا گیا ، 2022 میں سندھ کے تمام THQs تک بڑھا گیا جبکہ 2024 تک صحت کی سہولیات کو سندھ کی تمام تحصیلوں تک پہنچادیا جائے گا اوریہ سہولت24 گھنٹے عوام الناس کو دستیاب ہے۔
میڈیا ٹاک: ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ایک لاکھ بچوں کی صحتیابی پر مجھے آج یہاں مدعو کیا گیا ۔ بچوں کی نگہدایت کا ایمرجنسی روم اور ٹیلی میڈیسن کنٹرول روم کا معائنہ کیا۔ مجھے ڈاکٹرز نے براہ راست وڈیو کانفرنس پر شکارپور، مٹھی اور میرپورخاص میں بچوں کے علاج سے متعلق دکھایا ۔چائلڈ لائف فاؤنڈیشن نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت حکومت سندھ کے اشتراک سے اس پر کام ہو رہا ہے جس کے مثبت نتائج بھی دیکھے ہیں۔ یونیسف کی حمایت یافتہ ایک سے زیادہ اشارے کلسٹر سروے (MICS)2014میں سندھ کے اندر بچوں کی شرح اموات سے متعلق بتایا گیا ہے کہ 2014 میں 1000 بچوں میں سے 104 بچوں کی اموات رپورٹ ہوتی تھی اور شرح 10.4 تھی جبکہ حالیہ سروے 2021 کے مطابق یہ شرح کم ہوکر 1000 بچوں میں سے 46 بچےہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے دیگر صوبوں سے ہم بہتر کام کررہے ہیں جس کیلئے چائلڈ لائیف کا شکرگزار ہوں ، ہم نے 2016 میں جب چائلڈ لائیف کے نیٹ ورک سسٹم کے ساتھ ایمرجنسی روم اور سیٹلائیٹ سسٹم شروع کیا تو اس بات کو نظر میں رکھا کہ کوئی بھی بچہ اس سہولت سے 30 منٹ سے زائد دوری پر نہ ہو جس میں ہم کامیاب رہے۔2010 میں کراچی میں سب سے پہلے سول اسپتال ، این آئی سی ایچ ، کورنگی اسپتال ، عباسی شہید اسپتال اور لیاری اسپتال میں یہ سہولت دی گئی اور سندھ کے دیگر اضلاع میں نواب شاہ، سکھر ، لاڑکانہ اور حیدرآباد میں بھی ان سینٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمیں سب سے بڑی پیچیدگی ڈاکٹرز کی رسائی کا تھا جس کے بعد ہم نے فیصلہ لیا ہے کہ ٹیلی میڈیسن سسٹم تشکیل دیا مثلاً تمام تحصیل کے اسپتالوں میں موجود ٹیلی میڈیسن سینٹرز کو انکے ضلع اسپتال سے جوڑ دیا گیا جو کراچی میں موجود مرکزی سینٹرز سے چلائے جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس وقت ہم اس سسٹم کے تحت صوبے کے 70 اسپتالوں کو منسلک کرچکے ہیں جبکہ رواں سال کے آخر تک تمام تعلقہ اسپتالوں کو اس سسٹم کے ساتھ جوڑ دیں گے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمارے پاس فنڈز کی کمی نہیں اور نہ اسپتالوں کی بلکہ بڑا مسئلہ ڈاکٹرز اور اسپشلسٹ کی تعیناتی کا ہے تو لہٰذہ اب تمام صوبے مین تقریباً فائبر آپٹکس بچھائی جارہی ہے تو ان تمام سینٹرز میں ہائی ڈیفی نیشن کے کیمراز نصب ہیں ، مانیٹرنگ سسٹم ہے ، ڈاکٹرز ، نرسز اور عملہ موجود ہے ،سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ اس سسٹم کے ذریعے ہمارے لوکل ڈاکٹرز کی بھی تربیت ہورہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت تمام کامیاب منصوبوں میں سے ایک یہ بھی ہماری بہترین کامیابی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم صوبے کے عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گے اور جس طرح ہم لوگوں کی خدمت کررہے ہیں انشاء اللہ آگے بھی عوام ہمارا ہی انتخاب کرے گی کیوں کہ پیپلز پارٹی کے علاوہ کوئی بھی جماعت اس طرح خدمت کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کا ہم پرا عتماد ہے۔ سندھ کے بجٹ سے متعلق وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بجٹ 14 جون کو پیش ہوگا اور یہ عام انتخابات سے پہلے ہمارا آخری بجٹ ہوگا، آئندہ ہونے والا بجٹ ہم کریں گے لیکن عملدرآمد دوبارہ انتخابات میں جت کے بعد پیپلز پارٹی ہی کرے گی اور ہماری اولین ترجیح شعبہ صحت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ انھیں ڈاکٹر زنے بتایا کہ متوسط طبقہ اب اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسپتالوں کے بجائے یہاں لانا پسند کرتے ہیں اس لئے کہ وہ خرچ برداشت نہیں سکتے، ہمارے یہاں دوائیں مفت دی جاتی ہیں۔
عمران خان: وزیراعلیٰ سندھ نے گزشتہ روز معاشی سروے پر پی ٹی آئی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ تمام ٹارگٹ کو عبور کرلیا گیا وہ سب جھوٹ ہے۔انھوں نے کہاکہ 22-2021 کا بجٹ بتایا جاتا تھا کہ الیکشن بجٹ ہے اور اس نے جو تباہی مچائی ہے وہ سب کے سامنے ہے، اسلام آباد میں تھا تو بتایا گیا کہ صوبائی ترقیاتی بجٹ 900 ارب سے کم کرکے 500 ارب کردیا گیا ہے۔
معیشت: انھوں نے پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کو ایک مریض سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو معیشت بستر پر تھی۔ انھوں نے اس بستر پر بڑے مریض کو انجیکشن دے کر کہا کہ اب دوڑو جتنا دوڑ سکتے ہوجوکہ ہرگز درست نہیں ، جو بھی مریض ہوتا ہے اس کو پہلے بستر پر بٹھایا جاتا ہے اسکے بعد رفتہ رفتہ چلایا جاتا ہے لیکن انھوں نے تیز رفتاری دکھا کر بتایا کہ ہم نے تمام ٹارگٹ عبور کرلئے۔ انکو یہ معلوم نہیں کہ ملک کے وسائل 18 ارب سے کم ہوکر 8 ارب رہ گئے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور مہنگائی عروج پر پہنچادی۔ غریبوں سے پوچھا جائے کہ ہم نے ٹارگٹ عبور کئے ہیں کہ نہیں کئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس وقت بہت مشکل صورتحال میں ہیں اس میں ہم سب کو مل کر ساتھ دینا ہوگا۔
توانائی بحران: توانائی بحران سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں دکانیں دو تین گھنٹے پہلے بند کرنی چاہئیں جس کے بجلی بچائی جاسکتی ہےتو میں اپنی ٹیم کو ہدایات دی ہیں وہ اسٹیک ہولڈرز سے بات کریں امید ہے کوئی راستہ نکل آئے گا۔
ایم کیو ایم: ایم کیو ایم سے متعلق انھوں بتایا کہ انشاء اللہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی انرجی ایک ہے اور ہم صوبے کی عوام کی بہتری کیلئے مل کر کام کریں گے۔