کنمنگ(شِنہوا) چین کے جنوب مغربی صوبے یوننان میں ان دنوں اس سیزن کی گنے کی فصل کی کٹائی بتدریج ختم ہو رہی ہے۔ یوننان اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کے شوگر کین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تیسرے ریسرچ بیس پر، ایک پاکستانی سائنسدان فیصل مہدی کو اکثر کھیتوں میں مطالعہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں کام کرتے ہوئے مہدی گزشتہ سال نومبر میں یوننان آئے تھے۔ جہاں انہوں نے شوگرکین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محققین کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم کیا ہے۔ مہدی نے کہاکہ گنے کے کھیتوں اور لیبارٹری میں کام کے دوران، ہم ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے ہیں، لیکن کام سے باہر، ہم دوست ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آگرچہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا شکر پیدا کرنے والا ملک ہے، لیکن اس میں گنے کی پیداوار اور شکر کی مقدار کے لحاظ سے مسابقتی فوائد کا فقدان ہے۔ چونکہ عالمی موسمیاتی تبدیلی زراعت کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجز کا باعث بن رہی ہے اور بیماری اور بلند درجہ حرارت جیسے عوامل گنے کی پیداوار پر نمایاں اثرات مرتب کررہے ، پاکستان کی گنے کی صنعت کے لیے اعلیٰ مقدار، پیداوار اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت کی حامل گنے کی نئی اقسام کی ترقی انتہائی اہم ہے۔ شوگر کین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نائب محقق ڈینگ جون کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیقی مہارت مہدی کی تحقیقی ضروریات کو بہتر طور سے پورا کررہی ہے۔مہدی کو اپنی تحقیقی سمت کا تعین کرنے میں مدد کرنے کے لیے، انسٹی ٹیوٹ نے ان کے لیے ون آن ون سرپرست کا انتظام کیا ہے۔ مہدی نے کہا کہ "انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اگائی گئی گنے کی فصل ہماری صنعت میں ایک معیار ہے۔ صوبہ یوننان پہنچنے کے فوراً بعد، مہدی نے اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ گہری دوستی اور کام کے اچھے تعلقات قائم کیے،ان کا کہنا ہے کہ فی الحال، چین میں اس کی تحقیق ابھی شروع ہوئی ہے۔ یقین ہے کہ سب کے مخلصانہ تعاون سے ہم کامیابیاں حاصل کریں گے۔
اپنی پی ایچ ڈی کے دوران ، "سوکروز میٹابولائزنگ انزائمز”فیصل مہدی کی بنیادی تحقیق کا مرکز ہے۔ اب وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی میں گنے میں چینی کی مقدار بڑھانے کے لیے مختلف اقسام کواگا رہے ہیں۔ فیصل مہدی سے متعلق شوگر انسٹی ٹیوٹ کے محقق ژاؤ پی فانگ نے کہا کہ وہ بہت تندہی سے کام کرتا ہے ہر صبح وقت کی پابندی کے ساتھ کام پر پہنچتے ہیں اور کھیتوں میں کام کرتے وقت اکثر واپس جانا بھول جاتے ہیں۔ 2015 سے، یوننان اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز نے یکے بعد دیگرے 50 سے زائد بین الاقوامی ممتاز نوجوان سائنسدانوں کو چاول، جنگلی چاول اور گندم جیسے شعبوں میں مشترکہ تحقیق کے لیے مدعو کیا ہے۔ ان میں سے 12 پاکستانی سائنسدان گندم کی افزائش، کیڑوں پر قابو پانے، آلو کی افزائش، گنے کی افزائش اور بیماریوں سے بچاؤ وغیرہ میں دوگنا ہیپلائیڈ کے شعبوں میں تحقیق کے لیے اکیڈمی آئے اور وطن واپسی کے بعد انہوں نے اکیڈمی کے ساتھ قریبی تعاون رکھا۔ . یوننان اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کے ڈپٹی ڈائریکٹر لی شیاؤلِن نے بتایا کہ2020 میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے افریقہ، پاکستان اور ایران میں صحرائی ٹڈی دل کے پھیلنے کا عالمی الرٹ جاری کیا۔ چین میں ٹڈی دل کے حملے کو روکنے کے لیے، ہم نے پاکستان کے ایک سینئر پلانٹ پروٹیکشن ماہر محمد اشفاق سے رابطہ کیا جنہوں نے ہماری اکیڈمی میں ‘رائس پلانٹ ہوپر’ پر تحقیق کی اور فوری طور پر صحرائی ٹڈی دل کوکنٹرول کرنے کی صورتحال ہمارے ساتھ شیئر کی۔
لی نے مزید کہا کہ اشفاق سے معلومات، ٹیکنالوجی اور تجربے کے اشتراک نے صحرائی ٹڈی دل کی نگرانی، قبل از وقت انتباہ، روک تھام اور کنٹرول کے لیے اہم مدد فراہم کی ہے۔ پاکستان میں، جہاں گندم بنیادی خوراک ہے اور گندم کی سالانہ کھپت مسلسل بڑھ رہی ہے، صرف رقبہ بڑھا کر پیداوار میں اضافہ کرنا اب پائیدار نہیں رہا بلکہ فی یونٹ رقبہ پر پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یوننان اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز نے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے ساتھ ایک باقاعدہ تبادلہ اور تعاون کا طریقہ کار قائم کیا ہے، اور پاکستان میں گندم کی افزائش کے حالات کے مطابق افزائش نسل کی ٹیکنالوجی کی جدت پر تعاون کیا ہے۔ یوننان اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کی طرف سے تیار کردہ گندم کے ڈبل ہیپلائیڈ کی بڑے پیمانے پر پیداواری ٹیکنالوجی نے گندم کی افزائش اور پیداوار میں بہتری کو فروغ دیا ہے اور پاکستان میں فی یونٹ رقبہ گندم کی پیداوار کی سطح کو بہتر بنانے کا امکان پیداکیا ہے۔ ژاؤ نے کہا کہ ہم مہدی کے لیے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی مناسب پوزیشن تلاش کر رہے ہیں۔
شوگر کین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں مہدی کا پراجیکٹ رواں سال نومبر میں ختم ہو جائے گا، انسٹی ٹیوٹ میں ان کے ساتھی ان کے لیے کسی عہدے کی تلاش میں ہیں تاکہ وہ گنے کی افزائش میں مزید جان سکیں اور مزید نتائج کے ساتھ پاکستان واپس آ سکیں۔
اس سال کے شروع میں، مہدی کے ساتھیوں نے انہیں چینی نئے سال کا جشن منانے کے لیے اپنے گھر بلایا، یہ ان کی زندگی کا ایک نیا تجربہ تھا۔
مہدی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں نے اس سال انسٹی ٹیوٹ میں پُرجوش طریقے سے بہارکا میلہ منایا۔‘‘ مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں گنے کی تحقیق سے تعمیر کردہ دوستی کا پل مزید وسیع ہوگا۔