سرینگر(نمائندہ خصوصی کشمیر)سری نگر میں ہونے والے جی20 اجلاس سے ایک ہفتہ قبل اقوام متحدہ کے ایک خودمختار ماہر نے خبردار کیا ہے کہ ’ انڈین حکومت کی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرنے کے بعد سے وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ۔‘
سر ی نگر میں ہونے والے جی20 اجلاس سے ایک ہفتہ قبل اقوام متحدہ کے ایک خودمختار ماہر نے خبردار کیا ہے کہ ’2019 کے سے انڈین حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کیا ہے، اس کے بعد سے وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔‘اقوامِ متحدہ کے اقلیتوں کے حقوق کے خصوصی رپورٹر فرنینڈ ڈے وارینس نے ٹوئٹر پر جاری کرہ ایک بیان میں کہا کہ ’22 تا 24 مئی کو جی20 کے سیاحت پر ورکنگ گروپ کے اجلاس کے انعقاد سے انڈین حکومت اسے معمول کی بات بنانے اور اسے بین الاقوامی ’منظوری کی تصدیق‘ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے جسے کچھ لوگوں نے فوجی قبضہ قرار دیا ہے،‘ حالانکہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ ہیومن رائٹس کونسل نے چند ہفتے قبل کشمیر کے علاقے میں انسانی حقوق کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیا تھا۔خصوصی رپورٹر نے بیان میں بقول ان کے بڑے پیمانے پر حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا جس میں تشدد، ماورائے عدالت قتل، کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کی سیاسی شرکت کے حقوق سے انکار، جمہوری حقوق کی معطلی اور چھ اگست 2019 کو نئی دہلی سے براہ راست حکمرانی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات شامل ہیں۔انہوں نے کہا، ’وہاں کی صورت حال اس وقت سے بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے جب سے میں اور اقوام متحدہ کے ساتھی آزاد ماہرین نے 2021 میں انڈین حکومت کو ایک مراسلہ بھیجا تھا۔ اس وقت ہم نے شدید تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ڈومیسائل کے نئے قوانین اور دیگر قانون سازی سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی محرومی پیدا ہو سکتی ہے، اور کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں کی سیاسی شراکت داری اور نمائندگی کی شرح کو نمایاں طور پر کم ہو سکتی ہے اور اس سے ان کی لسانی حیثیت کو نقصان پہنچے گا، اور ثقافتی اور مذہبی حقوق متاثر ہوں گے۔‘