اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)رواں مالی سال کے دوران صنعتی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کی وجہ سے ملک بھر کے کئی شعبوں میں لاکھوں لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق خام مال کی درآمد پر پابندیاں، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پیداواری سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔اسٹیک ہولڈرز نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی کے 4 صنعتی شعبوں سمیت ملک بھر کے آٹو وینڈنگ یونٹس میں 5 لاکھ سے زائد لوگوں کو بےروزگاری کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم حکومت سندھ کے ڈائریکٹوریٹ آف مین پاور لیبر ہیومن ریسورس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ کاروباری افراد اِن اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔انہوں نے ملازمتوں کے بحران کو شرح تبادلہ کے مسائل سمیت دیگر مختلف وجوہات سے جوڑتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں صنعتی شعبے میں بے روزگاری 15 سے 20 فیصد کے درمیان ہے۔حکومت سندھ کے محکمہ شماریات، منصوبہ بندی اور ترقی کے ماہانہ صنعتی پیداوار اور روزگار سروے (ایم آئی پی ای)کے مطابق فروری میں 18 مختلف صنعتوں میں ملازمین کی کل تعداد 2 لاکھ 2 ہزار 663 تھی جو کہ گزشتہ سال فروری میں 2 لاکھ 21 ہزار 163 تھی،اسی طرح فروری 2023 میں اِن صنعتوں میں پروڈکشن ورکرز کی تعداد ایک لاکھ 51 ہزار 194 ہوگئی جو کہ گزشتہ برس فروری میں ایک لاکھ 62 ہزار 207 تھی۔لارج اسکیل یونٹس میں پروڈکشن ورکرز کی تعداد گزشتہ برس ایک لاکھ 65 ہزار تھی جو کہ رواں برس فرروی میں ایک لاکھ 55 ہزار ہوگئی۔علاوہ ازیں فروری 2022 میں ملازمین کی کل تعداد 2لاکھ 55ہزار تھی جبکہ فروری 2023میں یہ تعداد 2لاکھ 20ہزار تھی۔سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری (ایس اے آئی)کے صدر ریاض الدین نے کہا کہ سائٹ ایریا میں شعبہ خوراک کے سوا مختلف صنعتوں میں تقریباً 50ہزار سے ایک لاکھ لوگ اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صنعتی سرگرمیوں میں 30 سے 40 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے اور کچھ صنعتیں یا تو بند ہو گئی ہیں یا رواں مالی سال کے دوران انہوں نے اپنی ایک شفٹ کو معطل کردیا۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ 19.99روپے پاور ٹیرف اور 9ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو گیس ٹیرف واپس لیے جانے کے بعد مزید 50 فیصد صنعتیں بند ہو جائیں گی۔نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (این کے اے ٹی آئی)کے چیئرمین فیصل معیز خان نے کہا کہ یہ ایریا تقریباً 5ہزار سے 6 ہزار چھوٹے اور درمیانے درجے کے یونٹس پر مشتمل ہے جن میں سے 60 فیصد برآمدات کرتے ہیں اور 50 سے 60 لاکھ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ناموافق معاشی صورتحال کے پیش نظر تقریبا 25 فیصد صنعتوں نے اپنے یونٹس بند کر دئیے ہیں جس سے ایک لاکھ سے زائد کنٹریکٹ ملازمین بے روزگار ہو گئے ہیں جبکہ 75 فیصد صنعتوں نے اپنی پیداوار کم کر دی ہے۔انہوںنے کہاکہ سندھ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا تقریباً 30 سے 50 فیصد حصہ جزوی طور پر بند ہوچکا ہے اور اس تعداد میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔فیصل معیز خان نے کہا کہ 19 ارب 30 کروڑ ڈالر کی برآمدات پر مرکوز صنعت موجودہ مالی سال 2023 میں عالمی ترسیل میں کمی کا خدشہ ظاہر کر رہی ہے کیونکہ غیرملکی خریدار آرڈر کی ترسیل میں تاخیر کی وجہ سے ہچکچا رہے ہیں۔چیئرمین ایف بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (ایف بی اے ٹی آئی)ہارون شمسی نے کہا کہ فی الحال 1800 یونٹس میں کام کرنے والے 3 لاکھ 20 ہزار سے 3 لاکھ 80 ہزار ورکرز میں سے تقریباً 15فیصد لوگوں کو فارغ کردیا گیا ہے کیونکہ ٹیکسٹائل کی برآمدات کئی مہینوں سے کم ہوتی جارہی ہیں۔کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کے اے ٹی آئی) کے صدر فراز الرحمن نے کہا کہ درآمدی پابندیوں کے نتیجے میں خام مال کی قلت کے باعث 50 ہزار سے زائد ورکرز بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں سے 10 ہزار کا تعلق صرف فارماسیوٹیکل سیکٹر سے ہے۔پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس ایسیسریز (پی اے اے پی اے ایم)کے سینیئر نائب صدر عثمان اسلم ملک نے کہا کہ اگست 2022 سے آٹو پلانٹ کی مسلسل بندش کی وجہ سے ملک بھر میں وینڈنگ انڈسٹری میں براہ راست اور بالواسطہ ڈھائی سے 3 لاکھ ملازمین نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں فروری کے دوران گزشتہ برس فروری کے مقابلے میں 11.6 فیصد تک کمی آگئی جبکہ اس نے رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ کے دوران سالانہ بنیادوں پر 5.56 فیصد کی منفی نمو ظاہر کی۔