لاہور( نمائندہ خصوصی) چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر آئین اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات کا حکم دیتا ہے تو پھر سپریم کورٹ کے ججز آنکھیں نہیں جھپک سکتے، ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں،جب آئین کے نفاذ کی بات آتی ہے تو ہمیں اپنی آنکھیں نہیں جھپکنا چاہیے، اگر آئین میں کہا گیا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں انتخابات کرائے جائیں تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پر عملدرآمد کریں بجائے اس کے کہ ہم یہ راستہ تلاش کریں کہ ہم ایسا کرنے سے گریز کیوں کر رہے ہیں،یہ اپنی خواہش کی نہیں بلکہ آئین کی بات ہے ، سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ مذاکرات ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے،ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن کم از کم وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ آئین کی پاسداری کرنا ان کا فرض ہے اور ہم اس کوشش کی حمایت کے لیے موجود ہیں ورنہ ہمارا فیصلہ موجود ہے جس کی اپنی ایک طاقت ہے،ہو سکتا ہے فیصلہ آج نافذ نہیں کیا جائے گا لیکن یہ وقت کی کسوٹی پر رہے گا اور کل نافذ ہو جائے گا،اس معاملے کو تنازعہ کہا جا رہا ہے،مجھے افسوس ہے، میں تنازعہ کا متحمل نہیں ہوں، میں بہت ہی عاجز انسان ہوں ،براہ کرم یہ مت کہیں کہ آپ ہماری حمایت کرتے ہیں،میں سپریم کورٹ کے ارکان میں سے صرف ایک رکن ہوں، اگر آپ قانون اور آئین کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ہیں تو آپ کو سپریم کورٹ کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ کسی ایک فرد کا،سپریم کورٹ اور اس کے ججز کا انفرادی طور پر کوئی وجود نہیں ہے لیکن ایک اکائی اور ایک آئینی ادارے کے طور پر اور ہم اسی طرح کام کرتے ہیں،عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کر سکتیں، اگر عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا جاتا تو یہ حتمی فیصلہ ہوگا ،جب سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اس کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے ، پر امید ہوں پاکستان کے تمام ادارے آئین سے وفادار ہیں،آئین کا تحفظ عدلیہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور کے نجی ہوٹل میں ”دستور پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل حقوق“کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم اپنے سینئر جسٹس کارنیلئس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جسٹس کارنیلئس مجسم انصاف تھے، انہیں قانون سمیت دوسرے بہت سے علوم پر کمال حاصل تھا،جسٹس اے آر کارنیلیئس نے بہترین خدمات انجام دیں، انہوں نے 23 سال کی عمر میں آئی سی ایس پاس کیا، جسٹس کارنیلیئس نے سپریم کورٹ کو 17 سال دیئے، وہ جوڈیشل سسٹم کیلئے طرہ امتیاز تھے۔جسٹس اے آر کارنیلیئس ایک اچھے قانون دان اور سادگی پسند تھے، 1955میں انہوں نے گورنر جنرل کے اسمبلیوں کی تحلیل کو غیر قانونی قرار دیا۔ جسٹس اے آرکانیلیئس جب ریٹائر ہوئے تو ان کے کوئی اثاثے نہیں تھے، ان کی زندگی ججز کے لئے مثال ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے، آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے، 1964 میں 2 صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی، مولانا مودودی کیس میں پابندی ہٹا دی گئی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان دو دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار ہے، پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں، پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں، بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کا حق ہے، جب سچائی سے گریز کیا جائے تو انصاف سے گریز کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ججز میں انصاف کرنے کیلئے جسٹس کارنیلیئس جیسے اوصاف ہونے چاہئیں، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے، جسٹس کارنیلیئس نے کہا تھا ایگزیکٹو آفیسر بنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کر سکتے، ہر شخص قانون کے تابع ہے، ملکی ترقی کا واحد راستہ علم ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین جو کہتا ہے اس سے بچنے کی بجائے وہی کرنا ہوگا جو آئین کہتا ہے ، دنیا بھر میں ایسے فیصلوں کو کمزور تصور کیا جاتا ہے جو معاملے کی اصلیت کو جانچ کر نہیں کئے جاتے ،جب آئین کی عملدراری کی بات ہو تو ہمیں اپنی آنکھیں نہیں جھپکنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ میرٹ پر بات کرتی ہے تو اس کے فیصلے کو اخلاقی اختیار حاصل ہوتا ہے، یہ اس وقت اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب ان فیصلوں پر اپیل نہیں کی جاتی یا کوئی نظرثانی نہیں کی جاتی تو اس کا مطلب ہے کہ کسی کو فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔اگر نظرثانی درخواست دائر کی جاتی ہے تو اس پر سماعت کی جائے گا کیونکہ کوئی بھی فیصلہ اس وقت تک پابند نہیں ہوتا جب تک کہ یہ حتمی نہ ہو، لیکن اگر کسی فیصلے کو چیلنج نہ کیا جائے تو وہ حتمی ہو جاتا ہے، دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے۔