حیدرآباد(نمائندہ خصوصی) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ڈسٹرکٹ حیدرآباد کے زیر اہتمام شہریسندھ کے مقدمہ کے عنوان سے کانفرنس کا انعقادلطیف آباد نمبر 7کے نجی بینکوئٹ میں کیا گیا جس کی صدارات کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کی۔اس موقع پرسینئر ڈپٹی کنوینرزسید مصطفی کمال،ڈاکٹر فاروق ستار،ڈپٹی کنوینرز انیس احمد قائم خانی،عبد الوسیم و اراکین رابطہ کمیٹی انچارج و اراکین سندھ تنظیمی کمیٹی،ڈسٹرکٹ وزون کے ذمہ داران،اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی، حیدرآباد چیمبر آف کامرس سے تعلق رکھنے والے عہدیداران، وکلا اور مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے عہدیداران سمیت عمائدین شہر نے شرکت کی۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرہم اپنے عوام کے حقوق کی حفاظت نا کر سکے تو پاکستان کے ایوان میں رہنے کا ہمارا کوئی جواز نہیں سندھ کے شہری علاقوں کے افراد اب حکومتی اقدامات سے لاتعلق ہو رہے ہیں آج ہم بڑے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ارادے اور محبت سے پاکستان آئے تھے جب ہمارے اجداد آئے تو کراچی سندھ کا حصہ نہیں ملک کا دارلخلافہ تھاجب ون یونٹ توڑا گیا تو کراچی کے عمائدین کو بلا کر پوچھا گیا تو انہوں نے سندھ میں ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہمارے اکابرین نے کہا کہ سندھ کو ہماری ضرورت ہے اسطرح ہم ارادی اور اختیاری سندھی بھی ہیں کیونکہ اپنی مرضی سے سندھ کو اپنایا ہے کیا آپ نے کبھی دیہی پنجاب اور شہری پنجاب سنا ہے؟ یا کسی اور صوبے کا دیہی شہری نفاق سنا ہے یہ دوہرا نظام صرف سندھ میں کیوں ہے؟بھٹو صاحب سندھ سے زیادہ پنجاب کے علاقوں سے جیتے تھے کوٹے کی تقسیم کی وجہ اور بنیاد زبان اور قومیت ہے۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس مردم شماری میں دیہی اور شہری سندھ کا معاملہ نہیں زبان کا مسئلہ ہے فی بلاک لطیف آباد حیدر آباد میں 200 لوگ گنے جارہے ہیں جبکہ قاسم آباد میں 2000 لوگ گنے جارہے ہیں ظلم کی یہ مثال پاکستان تو کجا دنیا میں نہیں ہے یہ ایم کیو ایم محض آپ کو شناخت دلوانے کے لئے نکلی تھی اور یہ کرتی رہے گی ایم کیو ایم انفرادی فائدے پہنچانے کے لئے نہیں، بلکہ ایسے اصول بناتی ہے جس سے اجتماعی فائدہ ہوشہری سندھ ٹیکس نہیں بلکہ جزیہ ادا کرتا ہے کیونکہ اس کے عوض اسے کچھ نہیں ملتاجو ریاست اپنے لوگوں کو ایمانداری سے گننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اسکے وجود کا جواز نہیں بچتا۔انہوں نے مزید کہا کہ آج جس ادارے کے پاس ہم گئے اس نے ہماری بات مکمل سنی ضرور ہے اب انکے عمل کا انتظار ہے مردم شماری انتظامی معاملہ ہے یا سیاسی؟مردم شماری کے ایک اعلی افسر ہمیں پیغام دے گئے کہ اگر آپ شہری اور دیہی سندھ کا تناسب مناسب رکھیں تو معاملہ بن سکتا ہے ہمارے مطالبات کو عصبیت کی پٹی اتار کر دیکھیں ہم کہہ رہے ہیں کہ پورے سندھ میں تمام زبانوں کو مکمل گنو، انکا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کو اختیارات نچلی سطح تک پہنچانے اور کے لئے کیا گیا، کیا جمہوریت کے ثمرات عام پاکستانی تک پہنچ گئے؟یہ ترمیم صوبوں کو اختیارات کا محور بنانے کے لئے نہیں بلکہ عام پاکستانی کو بااختیار بنانے کے لئے تھی دنیا کا واحد بدنصیب ملک پاکستان ہے جہاں جاگیردارانہ نظام موجود ہے یہ ریونیو جو کراچی جمع کرواتا ہے اس سے وہ عام غریب سندھی ترقی نہیں کررہا بلکہ اس سے دبئی میں رئیل اسٹیٹ بن رہی ہے اب بھی اگر آبادی صحیح نہیں گنی گئی تو جدوجہد کو ایک نیا موڑ ملے گاآنے والے 8 سے 10 دن میری اور آپکی زندگی کے لئے اہم دن ہیں۔سینئر ڈپٹی کنوینر سید مصطفی کمال نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہری سندھ کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کا پردہ چاک کر کے ایم کیوایم پاکستان تاریخ میں اپنے کرنے کے کام احسن طریقے سے کر رہی ہے اورہم ناانصافیوں کی بروقت نشاندہی کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ بعد میں ہمیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جائے کون سا معاشرہ ہوگا جہاں انسانوں کو خود کو گنوانے کی جدوجہد کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کے تمام معززین آج یہاں خود کودرست گنوانے کی جدوجہد کیلئے یہاں موجود ہیں اس مردم شماری کے آغاز سے ہی ہم نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس سارے عمل کی نگرانی کریں گے اور جیسے ہی ناانصافی و زیادتی کا عمل شروع ہوا ایم کیو ایم نے وزیر اعظم پاکستان سے لے کر ادارہ شماریات کے افسران تک سب کو حقیقت سے آشکار کیا تب انہوں نے ہماری بات سے اتفاق نہیں کیا لیکن جب ہماری شکایتوں کو چیک کروایا گیا تب انہی افسران کو شرمندگی اٹھانا پڑی کراچی میں 32000اور حیدرآباد میں 1464کثیرالمنزلہ عمارات ایسی ہیں جہاں عملہ لوگوں کو گننے نہیں پہنچاشہری سندھ کے جب پہلے مرحلے میں مکانات ہی نہیں گنے گئے تو کیا ہو گاایک لاکھ37 ہزار مکانات کو حیدرآباد میں گنا ہی نہیں گیاشہری سندھ کے عوام کے ساتھ اس مردم شماری میں عجیب مذاق کیا گیا 29 لاکھ مکانات کراچی میں گنے گئے جبکہ 10 لاکھ کو گنا ہی نہیں گیااب بہت ہوگیاایم کیو ایم پاکستان اور شہری سندھ کے عوام ان فیصلوں کو قبول نہیں کریں گے07 اپریل کو مردم شماری کے ابتدائی اطلاعات پر 98 فیصد مکمل ہونے والی آبادی پر کراچی 13.8 ملین تھا آج ایم کیو ایم کی وجہ سے مردم شماری کی تاریخ ایک ماہ سے متعدد بار بڑھ چکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کی نام نہاد قوم پرست جماعتوں کی پریشانی بڑھنا شروع ہوگئی ہے کثیر المنزلہ نا گنی جانے والی عمارتوں کے یہ نمبر ایم کیو ایم پاکستان کے نہیں ادارہ شماریات کے ہیں کراچی میں فی بلاک آبادی 1000 سے کم جبکہ دیہی علاقوں میں 2000 سے زائد ہے شماریات کا ادارہ خود کہہ رہا ہے ایک گھر میں ایک فرد کی آبادی والے گھر کراچی حیدرآباد میں 9.5 فیصد ہیں جبکہ باقی پاکستان میں ایک فیصد، انکا کہنا تھا کہ حکمرانوں حالات ایسے کردئے ہیں کہ آج75 سالوں کے بعد پاکستان بنانے والوں کو پینے کے پانی تک کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے اب ایساہرگز نہیں چلے گاحیدرآباد کی بزنس کمیونٹی کوبھی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپکے حق پر ڈاکہ نہیں پڑنے دیں گے پورے سندھ میں آبادی بڑھ رہی ہے جبکہ عین لطیف آباد میں کم ہو رہی ہے بہت ادب و احترام سے بتا رہے ہیں کہ ایسا نہیں چلے گاایسا نا ہو لوگ امن اور صلح کی بات کرنے کے بجائے کہیں اور چلے جائیں اگر ہمیں گنا نہیں جاتا تو ہمارے حکومت میں رہنے کا جواز بھی نہیں بچتاآج کوٹہ سسٹم پر ہمارے حقوق کوغضب نہیں کیا جاسکتا۔سید مصطفی کمال نے کہا کہ جو کہتے ہیں کراچی منی پاکستان ہے، کیا صرف کھانے کمانے کیلئے ہے گنے جانے کیلئے نہیں ہے؟کراچی وحیدرآباد میں بسنے والی تمام کمیونٹی کے لوگوں کو گنا جائے کراچی میں ابتک 47 لاکھ لوگ جبکہ حیدرآباد میں 7 لاکھ لوگ ہمارے پہرہ دینے سے بڑھ چکے ہیں ریاست کا کوئی دروازہ ہم نے کھٹکھٹانے سے نہیں چھوڑاسرکار اپنے نمبر ٹھیک کئے بغیر مردم شماری میں گنتی کا عمل ختم نہیں کر سکتی اور نا ہی ایم کیو ایم ایسی مردم شماری کو قبول نہیں کریں گے۔سینئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کی عدلیہ، اداروں اور تمام طاقتور حلقوں کے آگے مردم شماری کا مقدمہ رکھا ہے کہ ان تمام لاپتہ آبادیوں کو بازیاب کرایا جائے گزشتہ2017کی مردم شماری میں بھی 40 فیصد حیدرآباد کی آبادی کو لاپتہ کیا گیا تھاحیدر آباد کے فی بلاکس میں 1000 سے زیادہ گنتی ہو ہی نہیں پارہی ایسا لگ رہا ہے کہ شہری سندھ میں صرف لوگ مر رہے ہیں جبکہ باقی سندھ میں شرح پیدائش زیادہ ہے نوابشاہ اور لاڑکانہ کی آبادی جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے ایسا لگتا ہے معاشی حب سندھ کے وہ ڈویژنز ہیں شہری سندھ کے عوام گزشتہ 75 سالوں سے اپنے حقوق کا مقدمہ لڑ رہے ہیں اگر اب بھی انہیں کم گنا گیا تو اب ایم کیو ایم پاکستان اپنے عوام کا مقدمہ بین الاقوامی عدالتوں میں لے کر جائیں گے شہری سندھ کا مقدمہ دراصل پاکستان کا مقدمہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے وڈیروں جاگیرداروں سے کہتے ہیں کہ ظلم کا سلسلہ اب بند کیا جائے کیونکہ یہ ہم پر اپنی کالونی بنانے کی پالیسی پر کاربند ہیں شہری سندھ کے تمام اداروں پر ان وڈیروں جاگیرداروں نے افسران کے ذریعے قبضہ کر لیا ہے لیکن یہ کچھ بھی کر لیں ہم سے پاکستانی شناخت نہیں چھین سکتے اب ہمیں بھی سوچنا اور فیصلہ کرنا ہے کہ آگے ہمیں کیا کرنا ہے۔ڈسٹرکٹ انچار ج ظفر احمد صدیقی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی قیادت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے حیدرآباد کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے شہری سندھ کا مقدمہ پہلے حیدرآباد میں رکھا،ہماری قیادت نے چیف بیورو آف اسٹیٹکس ادارہ شماریات کے افسران کو تمام مسائل سے مسلسل آگاہ کرتے آرہے ہیں اور جب تک ایک ایک شہری کو گن نہیں لیا جاتا یہ جدو جہد جاری رہے گی۔اس موقع پر حیدرآباد چیمبر آف کامرس کے صدر عدیل صدیقی،اسمال ٹریڈرز ایسو سی ایشن کے صدر الطاف میمن ودیگر نے بھی گفتگو کی۔