نیویارک (نمائندہ خصوصی)ایشیائی ترقیاتی بینک کے ڈائریکٹر جنرل برائے وسطی و مغربی ایشیا یوگینی زوکوف نے توقع ظاہر کی ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان کےلئے اگلی کنٹری پارٹنرشپ اسٹریٹجی (سی پی ایس)، جو اس وقت تیاری کے مراحل میں ہے، آئندہ 5 برسوں میں موسمیاتی پورٹ فولیو (موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں کمی کے اقدمات) میں اضافے کی بنیاد رکھے گی۔انہوں نے سی پی ایس کے حوالے سے معلومات شیئر کی جس کا مقصد ملکی سطح پر ترقیاتی نتائج فراہم کرنے کے لیے آپریشنز کو ترتیب دینا ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یوگینی زوکوف نے کہ پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں 2023 کے دوران پراجیکٹ فنانسنگ سب سے زیادہ ہوگی۔یوگینی زوکوف نے کہا کہ مالی اعانت کے ترجیحی شعبوں میں ٹرانسپورٹ، توانائی، شہری ترقی، موسمیاتی پائیداری، قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت تیاری اور غذائی تحفظ شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے منصوبے تیاری کے مراحل میں ہیں اور جلد ہی ان کو حتمی شکل دے دی جائےگی جس کے بعد فنانسنگ کا مجموعی تخمینہ لگایا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ ایشیائی ترقیاتی بینک حکومت پاکستان کے ساتھ توانائی کے موجودہ ذرائع (کوئلہ اور فوسل سیول وغیرہ) کو کلین پاور پر منتقل کرنے کا طریقہ کار تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے عہدیدار نے بتایا کہ وسطی اور مغربی ایشیا کے لیے علاقائی موسمیاتی تبدیلی کی حکمت عملی اور ایکشن پلان تیار کیا جا رہا ہے اور خطے میں ایشیائی ترقیابی بینک کی کلائمیٹ فنانسنگ بنیادی طور پر توانائی، زراعت اور ٹرانسپورٹ کے منصوبوں پر مرکوز ہو گی۔انہوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک 2030-2019 کے لیے ایشیا اور بحرالکاہل میں کم از کم 100 ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ فراہم کرنے کا خواہاں ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنے بیان میں کہا کہ 2022 میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے کلائمیٹ فنانسنگ میں 6 ارب 70 کروڑ ڈالر کا وعدہ کیا، جس میں وسطی اور مغربی ایشیا کے لیے 89 کروڑ ڈالر سے زیادہ شامل تھے۔علاوہ ازیں مذکورہ بیان میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے گزشتہ روز جاری کی گئی ایک تحقیق کا بھی حوالہ دیا گیا۔ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے علاقائی اقدامات کی حمایت کے عنوان سے کی گئی اس تحقیق میں خبردار کیا گیا کہ پانی کی کمی سے خشکی میں اضافے کا خطرہ بڑھے گا اور زرعی پیداواری صلاحیت میں کمی آئے گی، پاکستان کا خوراک کی بیرونی فراہمی پر انحصار بڑھے گا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوجائے گی۔بیان میں کہا گیا کہ اس تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے وسطی ایشیا کے علاقائی اقتصادی تعاون (ای اے ار اے سی) کے خطے پر شدید اثرات پڑنے کی توقع ہے، جس میں وسطی ایشیا، منگولیا، پاکستان اور چین شامل ہیں۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جارجیا اور چین سمیت پاکستان خطے کے وہ 3 ممالک ہیں جو ساحلی پٹی پر واقع ہیں لہذا انہیں سطح سمندر میں متوقع اضافے سے جڑے خطرات کا سامنا ہے۔ہیٹ ویو، گلیشیئرز کے پگھلنے، پانی کی قلت اور خشک سالی اور سیلاب دونوں کو ہی اس تحقیق میں ایسے بڑے مسائل قرار دیا گیا ہے جن کا سامنا پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی صورت میں کر رہا ہے۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اوسط سے زیادہ درجہ حرارت میں اضافے سے پانی کی شدید قلت، خشک سالی میں اضافہ اور سیلاب اور خشک سالی جیسے شدید موسمی خدشات موجود ہیں۔تحقیق کے مطابق سی اے آر سی خطہ خطہ کاربن کے اخراج میں حصہ ڈالتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتا ہے جس کے سبب یہ خطہ موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کے خطرے سے دوچار ہے۔