( تحریر:مسعود انور)
حصہ اول۔ [email protected]
www.masoodanwar.com
گزشتہ ماہ سے ہی اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں نے دنیا میں قحط جیسی صورتحال سے خبردار کرنا شروع کردیا ہے ۔ اس موضوع پر بین الاقوامی جرائد اور اخبارات میں بڑی بڑی خبریں شایع ہورہی ہیں جن میں بتایا گیا ہے دنیا ایک خوفناک قحط کا شکار ہونے جارہی ہے ۔
اکنامسٹ نے اپنے 21مئی تا 27 مئی کے شمارے میں غذائی سانحہ یا غذائی آفت کے نام سے ٹائٹل اسٹوری کی ہے ، اکنامسٹ کے ٹائٹل پر گندم کی بالیوں کی تصویر ہے جس میں گندم کے دانوں کے بجائے قحط کا شکار ہو کر متوقع مرنے والوں کی کھوپڑیاں دکھائی گئی ہیں ۔ گارجین ، نیویارک ٹائمز سمیت تمام قابل ذکر اخبار و جرائد میں اس موضوع پر روز خبریں اور فیچر آرہے ہیں ۔ ان خبروں کا لب لباب یہ ہے کہ روس کی یوکرین پر چڑھائی کے بعد دنیا میں گندم کی قلت پیدا ہوگئی ہے کہ روس اور یوکرین کی گندم کی مشترکہ پیداوار دنیا کی مجموعی پیداوار کا ایک چوتھائی ہے ۔ اس پر مزید یہ ہوا کہ بھارت نے بھی گندم کی پیداوار میں کمی کے باعث اس کی برآمدات پر پابندی لگادی ہے ۔
اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے کہہ رہے ہیں کہ دنیا غذائی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے ۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں غذائی بحران سے متاثرہ افراد کی تعداد دگنی ہوگئی ہے یعنی ساڑھے تیرہ کروڑ افراد سے بڑھ کر یہ تعداد ساڑھے ستائیس کروڑ ہوگئی ہے جبکہ پانچ لاکھ سے زاید افراد کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے ۔
تقریبا 15 برس قبل 2007-08 میں ہونے والی غذائی قلت 1974 کے بعد ہونے والی بدترین قلت تھی ، جس کے باعث ایک ارب سے زاید افراد متاثر ہوئے تھے ۔ اس غذائی قلت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ دنیا میں اجناس کی پیداوار کم ہوگئی تھی بلکہ اس کی وجہ عالمی کھلاڑیوں کی جانب سے گندم کی قیمت میں 130 فیصد اور چاول کی قیمت میں 70 فیصد کے قریب اضافہ تھا ۔ 2008 میں اجناس کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوگئی تھی مگر یہ بحران 2009 تک بھی ختم نہیں ہوسکا تھا۔
اب ایک مرتبہ پھر قحط کا ڈرم پیٹنا شروع کردیا گیا ہے ۔ مذکورہ صورتحال پربات کرنے سے قبل قحط کے لفظ کو ہی دیکھتے ہیں ۔ قحط سے مرنے کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ انسان کو کھانے کے لیے کچھ بھی دستیاب نہ ہو۔ چاہے امیر ہو یا غریب ، دونوں کو کھانے کے لیے کچھ بھی نہ ملے تو اس کا مطلب قحط ہے ۔ اگر دکانیں اجناس سے بھری ہوئی ہوں اور ان کی مقدار اتنی ہو کہ پورے علاقے کی غذائی ضرورت پوری ہو سکتی ہو تاہم صرف قیمتیں زیادہ ہونے کی بناء پر غریب اور متوسط طبقہ کھانے سے محروم ہو کر موت کے منہ میں جا رہا ہو تو اسے تیکنیکی طور پر نہ تو قلت کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی قحط ۔ اسے ذخیرہ اندوزی کہا جاسکتا ہے ، بلیک مارکیٹنگ کہا جاسکتا ہے مگر قحط و قلت نہیں ۔ اس وقت 2007-08 کی طرح دوبارہ سے اجناس کی قیمتیں عالمی منڈی میں بڑھانا شروع کر دی گئی ہیں ۔قیمتوں میں ایک تہائی اضافہ کی وجہ کھاد کی قیمتوں میں اضافہ اور دو تہائی اضافہ کی وجہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کو قرار دیا جارہا ہے ۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں کا مسلسل انتباہ، بین الاقوامی میڈیا میں قوالی کے انداز میں قحط کی گردان اوراجناس کی مسلسل بلند ہوتی قیمتوں نے دنیا بھر میں خوف کا عالم پیدا کردیا ہے ۔ اس سے ہر سطح پر ذخیرہ اندوزی شروع ہو گئی ہے ۔ جس سے حقیقی نہیں تو مصنوعی قلت کے اندیشے ضرور پیدا ہوگئے ہیں ۔
اگر ہر صارف دس کلو آٹا اور دس کلو چاول ہی گھر پر ذخیرہ کرنا شروع کردے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مارکیٹ میں اچانک کیسا خوف پھیلے گا، دکاندار بھی ذخیرہ اندوزی شروع کردیں گے اور تھوک فراہم کنندگان بھی ۔ خوش قسمتی سے 2007-08 میں ہونے والی قلت سے پاکستان صرف اتنا متاثر ہوا تھا کہ اشیائے صرف کی قیمتیں غیر فطری طور پر بلند ہوئی تھیں جو پھر کبھی پرانی سطح پر واپس نہیں آئیں ۔ تاہم یہاں پر قلت پیدا نہیں ہوئی تھی ۔ یہ اہم ترین سوال ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوگا ۔
بدقسمتی سے اس سوال کا جواب بھیانک ہے ۔ صرف موجودہ مصنوعی قلت ہی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری کو گروی رکھ چکا ہے ۔ سب سے اہم مسئلہ تو پانی کا ہی ہے ۔ اس معاملے میں ہم دشمنوں سے زیادہ اپنوں کی چیرہ دستی کا شکار ہوئے۔
ستمبر 1960 میں جنرل ایوب خان نے کراچی میں بھارتی سربراہ جواہر لعل نہرو کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کیا ۔ اس معاہدہ کا سہولت کار تھا ورلڈ بینک ۔ اس معاہدے میں پاکستان نے اپنے تین دریاوں بیاس ، راوی اور ستلج کو چھ کروڑ بیس لاکھ ساٹھ ہزار پاونڈ اسٹرلنگ کے عوض بھارت کو فروخت کردیا ۔ کہا گیا کہ بقیہ تین دریاوں سندھ، چناب اور جہلم سے بھارت اور پاکستان دونوں فائدہ اٹھائیں گے تاہم بھارت ان تینوں دریاوں کا پانی ذخیرہ نہیں کرسکے گا ۔ اس معاہدے میں پاکستان کا وہی حشر ہوا جو گدھے کا شیر کے ساتھ پارٹنر شپ میں ہوا تھا ۔ کہتے ہیں کہ ایک شیر بڑھاپے کے باعث شکار نہیں کرپا رہا تھا تو اس نے گدھے سے شراکت داری کرلی کہ گدھا شکار کا ہانکا لگا کر لائے گا اور شیر شکار کرے گا ۔ شام تک دونوں نے مل کر خوب شکار کیا۔ شام کو جب حصے بخرے کا وقت آیا تو شیر نے شکار کے تین حصے کیے ۔ پہلا حصہ شیر نے اپنی طرف کرتے ہوئے گدھے سے کہا کہ وہ جنگل کا بادشاہ ہے ، اس لیے ایک حصہ بطور ٹیکس اس کا ہوا ، گدھے نے کہا بالکل درست ۔ دوسرا حصہ شیر نے اپنی طرف کرتے ہوئے کہا کہ دونوں نے مل کر شکار کیا ہے ، اس لیے یہ اس کا حصہ ہوا ، گدھے نے کہا بالکل درست ۔ تیسرے حصے کی طرف دیکھتے ہوئے شیر نے کہا کہ جس میں ہمت ہو ، وہ یہ لے لے ۔
کچھ ایسا ہی سندھ طاس معاہدے میں ہوا، بھارت نے پاکستان سے تین دریا خرید لیے ۔ بقیہ تین دریاوں کی صورتحال یہ ہے کہ جس میں ہمت ہو ، وہ اس پر قبضہ کرلے ۔ ان تینوں دریاوں پر بھارت مسلسل سو سے زاید چھوٹے بڑے ڈیم بنا رہا ہے ۔ کشن گنگا ڈیم کے لیے نیلم سے اوپر سرنگ سے دریائے جہلم کا پانی لے جایا جارہا ہے ۔ بگلیہار ڈیم بنایا جارہا ہے ۔ ان سب ڈیموں کے لیےپاکستان فریاد لے کر عالمی بینک کے پاس پہنچا مگر اس نے کہا کہ بھارت درست ہے ۔
رہی سہی کسر تمام حکومتوں کے چہیتے سید جماعت علی شاہ نے پوری کردی ۔ سید جماعت علی شاہ کو انڈس واٹر بیسن ٹریٹی IWBT کا پاکستان کی طرف سے کمشنر 1993 میں مقرر کیا گیا تھا اور انہیں 2010 میں عوامی احتجاج کے بعد بہ مشکل برطرف کیا گیا ۔ اس عرصے کے دوران زرداری ، نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتیں پاکستان میں رہیں ۔ سید جماعت علی شاہ نے بھارتی ڈیموں کی تعمیر کے خلاف کردار ادا کرنے کے بجائے بھارت کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کیا ۔ جماعت علی شاہ کو برطرف کرنے کے بعد نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا مگر انہیں ملک سے باہر نکالنے والے بھی وہی تھے ، جنہوں نے نام ای سی ایل میں ڈالا تھا اور اب جماعت علی شاہ کینیڈا میں مزے کی زندگی گزار رہا ہے۔
مختصرا ، اس وقت پاکستان میں خشک سالی اور سیلاب دونوں بھارت کی منشا پر منحصر ہے ۔ دونوں ہی صورتحال زرعی پیداوار کے لیے تباہ کن ہیں ۔ یہ معاملات تو پھر بھی سامنے کے ہیں ۔مگر یہ آئس برگ کا سرا ہے ۔ اس سے بھی زیادہ بری صورتحال مزید درپیش ہے ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔