اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ عدالتی حکم اپنی جگہ لیکن آئین سے انحراف کر کے فنڈز جاری نہیں کر سکتے۔قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اگر 63 کو ری رائٹ نہ کیا جاتا تو پورے ملک میں الیکشن ایک وقت میں ہوتے، دو اسمبلیوں کی تحلیل سے تمام خرابیوں نے جنم لیا، دو اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو اتنی خرابیاں نہ ہوتیں۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دو اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے 14.4 ارب اضافی اخراجات مانگے، الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے لیے 54 ارب کا مطالبہ تھا، الیکشن کمیشن سے بات چیت کر کے 47.4 ارب اخراجات طے ہوئے تھے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ 2 اسمبلیاں توڑ کر ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی گئی، اگر کورٹ کا آرڈر ہے تو پروسیجر کے بغیر نہیں ہو سکتا، ہم نے آرٹیکل 81ای کا سہارا لیا اور معاملے کو کابینہ لے گئے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم اس فیصلے کو مانتے ہی نہیں، کابینہ نے کہا فیصلہ 4 ، 3 کا ہے جسے مانتے ہیں، عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک رقم جاری کرے، آئین میں ایسا سسٹم نہیں کہ سٹیٹ بینک خود پیسے جاری کر دے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ عدالتی حکم اپنی جگہ لیکن آئین سے انحراف کر کے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، سٹیٹ بینک اپنے اختیار سے فنڈز جاری نہیں کر سکتا، جب تک قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا جاتا کوئی ادارہ فنڈز جاری نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ ایوان تین دفعہ اپنا فیصلہ سنا چکا ہے، اگر پیسے مل بھی جائیں تو کیا 90 دن کے اندر الیکشن ہو جائیں گے؟ محترمہ کی شہادت کے بعد الیکشن آگے چلے گئے تھے، مردم شماری پر 35 ارب خرچ کر رہے ہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ سیکشن 69 کہتا ہے پاکستان میں ایک ہی دفعہ الیکشن ہوں گے، تماشا کر کے قوم کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے، پاکستان بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے، گزشتہ حکومت کی وجہ سے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5 سال میں پاناما، الیکشن چوری کرنے کا ڈرامہ ہوا، آج جدھر اکانومی ہے رونے کا مقام ہے، شہباز شریف نے اقتدار سنبھالا تو سیلاب آگیا تھا، کونسی بڑی آفت آجائے گی جو الیکشن ایک دن ہوں گے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 5 سال پہلےمیری بات کو مانا ہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے، ملک کو تباہ کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہو گا۔