کراچی(نمائندہ خصوصی) صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے قانون بیریسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ عمران خان کے حالیہ انٹرویو اور صدر عارف علوی کی ایوان صدر میں سرگرمیوں کا ازخود نوٹس لیا جائے ۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی غیر آئینی تحلیل کے باعث آج ملک میں بحران کی صورتحال ہے ، اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ کیا پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں آئینی طریقے سے توڑی گئیں ۔ کیا سپریم کورٹ کا غیر آئینی طریقے سے توڑی گئیں اسمبلیوں کا از خود نوٹس بنتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جوڈیشل کو لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ آرکائیوز کمپلیکس میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ملک میں سنجیدہ صورتحال پیدا ہو رہی ہے ، ملک میں جوڈیشل لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، انہوں نے کہا کہ ماضی میں چیزیں پردے کے پیچھے ہوا کرتی تھیں لیکن اب پوری قوم کے سامنے معاملات نظر آ رہے ہیں ، جب معاملات پر پردے اتر رہے ہیں تو شکوک و شبہات بھی بڑھ رہے ہیں ۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ ہماری عدلیہ میں اس طرح سے معاملات چلائے جا رہے ہیں اور کیا اسی طرح ذاتی پسندناپسند پرفیصلے ہوتے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پرسوں عمران خان نے انٹرویو میں خطرناک انکشافات کئے ہیں۔ انہوں نے جنرل (ر ) باجوہ سے اگست میں ایوان صدر میں ملاقات کاانکشاف کیا ہے شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اس ملاقات سے قبل عمران خان نے جنرل ( ر) باجوہ کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ایوان صدر کا کیا کام ، کیا وہ سازشوں کاگڑھ ہے۔ ایک آرمی چیف اورسابق وزیراعظم کی ملاقات کوخفیہ رکھا جاتا ہے، اس سے متعلق ایوان صدر سے کوئی پریس ریلیز بھی جاری نہیں کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ انہوں نے جنرل (ر) باجوہ کے کہنے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسیمبلیاں توڑیں ۔کیاسپریم کورٹ کا غیرقانونی طورپرتوڑی گئی اسیمبلیوں کاازخود نوٹس بنتاتھا۔ اب کورٹ انتخابات کے لئے بضد ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی ثاقب نثارکی آڈیولیکس آئی ہے۔ ثاقب نثار مکمل طور پر سازشوں میں ملوث ہے پورا نیکسز بنا ہوا تھا ، ثاقب نثار کا پورا دور اور ان کے فیصلے سوالیہ نشان بن چکے ہیں
، ثاقب نثار عمران خان کاشروع سے سہولتکار ہے ، مخالف جماعتوں کوعوام میں منفی دکھایا گیا ۔ میں سمجھتاہوں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ٹائیگرفورس کارکن تھا۔ مرضی کے بینچ بنائے گئے اور اپنی مرضی کے فیصلے لئے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ کیا ثاقب نثار کے تمام فیصلے کلعدم نہیں ہونے چاہئیں ۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ کیا ہدایات دینا ججوں کاکام ہے ، یہ لوگوں کومذاکرات کاکہہ رہے ہے، آئین کی کون سی شق کے تحت یہ احکامات دیئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جوڈیشل کو لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ یہ ادارے پوری قوم کی امید ہیں، لیکن بدقسمتی سے چند لوگ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر پر جانبدار بنے ہوئے ہیں، کیایہ پورے سسٹم پرسوالیہ نشان نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کٹ پتلی ہے پہلے کسی اور کی انگلیوں پر ناچتا تھا اب کسی اور کی انگلیوں پر ناچنے کے لیے تیار بیٹھا ہے ۔ اس شخص نے فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی ، کسی دور میں عدلیہ کو نشانہ بنایا اور اب یہ شخص ملک کو بدنام کرنے کی سازشیں کر رہا ہے ، عمران خان ہمارے ملک کو نشانہ بنانا چاہتا ہے ، بیرون ملک پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل اس کام پر مامور ہے، صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اپنی آنکھیں کھولیں اور تحریک انصاف کے دوسرے درجے کے رہنماؤں کو عمران خان کے حالیہ انٹرویو کے بعد ان سے بغاوت کردینی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے انٹرویو اور عارف علوی کی سرگرمیوں کاازخود نوٹس لینا چاہیئے، اس وقت کے وزیراعلی پنجاب کہہ چکے کہ پچانوے فیصد پنجاب اسمبلی میمبران پنجاب اسیمبلی تحلیل کرنے کے خلاف تھے ۔ اس موقع پر مشیر قانون بیریسٹر مرتضیٰ وہاب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
جو لوگ عمران خان سے چھپ کرملاقاتیں کرتے ہیں انہیں سوچناچاہیئے کہ تین مہینے کے بعد ان کی باتیں بھی نہ بتائی جارہی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسیمبلیاں قانونی طورپرتوڑی گئیں یاغیرقانونی اس کی تحقیقات ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ 63 اے کے فیصلے میں بڑا تضازاد ہے ۔ آئین بنانا دنیا بھر میں پارلیامنٹ اوراسیمبلیوں کاکام ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بعض عدالتی فیصلوں کے ذریعے آئین کو تبدیل کر دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 63 اے میں طریقہ کار درج ہے لیکن فیصلہ میں اس کو سائیڈ پر رکھ دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو ۔ لیکن کیا لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ عدالتیں کریں گی ، تو پھر فیصلہ کیاجائے کہ پارلیامنٹ کی جگہ سب فیصلے چیف جسٹس کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دان عوام کے نمائندے ہیں، لاکھوں ووٹ عوام سے لیکر آتے ہیں، پھربھی وہ آئین میں تبدیلی نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے فیصلے کئے جاتے ہیں جس سے منتخب حکومتیں اور وزرائے اعظم متاثر ہوتے ہیں ،ایک بار پھر وزیراعظم کوٹارگیٹ کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کیاقانون کوبننے سے پہلے ختم کیا
جا سکتاہے، قانونسازی کاایک عمل ہے ، جس کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ موجود ہیں ، لیکن ابھی نوٹیفکیشن نہیں نکلا پارلیمان کی جانب سے کی گئی قانون سازی کوختم کردیا جاتا
ہے۔ پین کے ایک اسٹروک سے سب کچھ ختم کردیا جاتا ہے۔ مشیر قانون بیریسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سیاست دانوں کا
ہر روز احتساب ہوتاہے
اگر وزیراعظم کسی کوبھرتی کرلیں توپوچھتے ہیں آپ نے بھرتی کیسے کئے ، اسی طرح افسران کااحتساب ہوتاہے توکیاجج صاحبان کااحتساب نہیں ہوناچاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس (ر) نسیم حسن شاھ نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے فیصلے کوغلط قراردیا تھا ، کیا ان کااحتساب نہیں ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ آج جو آڈیو ٹیپ آئی ہے وہ ان کا
کردار بتارہی ہے۔ نسلا ٹاورگرانے کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں اور اسلام آباد کی کانسٹیٹیوشنل اوینیو پر بلڈنگ کو ریگیولرائیزڈ کردیا جاتا ہے ۔ لیکن آج تک کسی معزز جج صاحب کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ، انہوں نے کہا کہ جج صاحبان کے خلاف ریفرنس دائر ہیں لیکن ان کو ٹیک اپ نہیں کیا جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایک فرد نہیں وہ تمام لوگ ہیں جو اس وقت سپریم کورٹ میں بیٹھے ہیں ۔ ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے کسی ایک شخص کے پاس نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ 184کے تحت ازخود نوٹس لے سکتی ہے
1989میں اعتزازاحسن کی پٹیشن پرسپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا اس معاملے پر گیارہ معزز جج صاحبان کا فیصلہ موجود ہے ،لیکن اس کو سائیڈ پر رکھ دیا گیا ۔