ہماری پہلی مُلاقات اپریل 2017 میں اور دوسری جولائی 2018 میں ہوئی تھی ۔ ایلینا سے مُلاقات کی بات کر رہا ہوں ۔
واٹس ایپ پر رابطہ تب سے اب تک ہے ۔
ہم تقریباً ہر حلال موضوع پر کُھل کر گفتگو کرتے ہیں ۔ اُس کی عمر تقریباً ساڑھے چار سو سال ہے ۔ پہلی بار جب میں ڈرا سہما جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر ایئرپورٹ سے کلیئرنس کے لیے قطار میں کھڑا دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا تو مجھے آواز آئی ” تُم کچھ زیادہ نہیں گھبرا رہے ؟ ”
مُڑ کر دیکھا تو ایک نوجوان ترین ، عجیب سی ملکوتی حسن کی مالک امریکی لڑکی قطار میں عین میرے پیچھے کھڑی مسکراتی ہوئی میرے پاسپورٹ کو دیکھ رہی تھی ۔
” اس میں صرف ایک ہی ملک کا ویزہ ہے نا ؟ ” اس بار اُس کا قہقہہ گونجا تھا ۔
مجھے ایسا لگا جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین پھسل رہی ہو ۔ میں نے اب تک اپنا پاسپورٹ اپنے ہم سفر وفد میں سے کسی پاکستانی کو بھی نہیں دکھایا تھا ۔
” جو پاکستانی سال میں تین تین چکر امریکہ کے لگاتے ہیں انہیں بھی ایئرپورٹ پر سات سات گھنٹے ذلیل کیا جاتا ہے ، تمھارے پاسپورٹ پر تو یہ پہلا ویزہ ہے اور انٹری بھی پہلی ہی ہے ، شاید واپس ہی بھیج دیں ” اب تو ہنسی کے مارے اُس کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں ۔
” بی بی تُو پریشان نہ ہو ، تمھاری انٹیلیجنس میرے پاسپورٹ کی خبر تو رکھ سکتی ہے میری قناعت کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی ” میں نے ہمت کر کے جُوا کھلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پہلا پتا پھینکا ۔
اب حیران اور پریشان ہونے کی باری اُس کی تھی ۔
” یہ قناعت کیا چیز ہوتی ہے ؟ ” اُس نے میری آنکھوں میں جھانک کر میرا دماغ پڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا
” ہوتی ہے ایک چیز لیکن وہ پاسپورٹ پر نظر نہیں آتی ” میں نے بڑی مُشکل سے رُکھائی سے جواب دیا ۔ حالانکہ دِل کہہ رہا تھا کہ قطار سے نکل کر وہیں کسی بینچ پر بیٹھ کر اُس کے ساتھ مسلسل ڈیڑھ دو مہینے کا مناظرہ کرتا رہوں ۔
” مجھے قناعت کا بتاؤ کیا چیز ہوتی ہے ؟ ” اُس نے پھر اصرار کیا
مجھے ایک چال سوجھی ۔
اب قطار میں مجھ سے آگے آخری بندہ تھا ۔
مجھے پتا تھا کہ کاؤنثر پر پہنچ گیا اور تفتیش شروع ہو گئی تو حلیے اور سوشل میڈیا پر کی گئی حرکتوں کی وجہ سے واپس نہ بھی بھیجیں تو چھ سات گھنٹے ذلیل تو ضرور کریں گے ۔ یہ اتنا کچھ اگر جانتی ہے تو تھوڑی بہت اس کی چلتی بھی ہو گی ۔
” ٹھیک پانچ منٹ بعد اگر میں اُس بینچ پر جا کر بیٹھ گیا تو بتا دوں گا کہ قناعت کتنا بڑا راز ہے ” میں نے مسکراتے ہوئے بال اُس کے کورٹ میں لوٹا دی ۔
” لیکن میں تو تمھیں دو منٹ بعد وہاں بیٹھا دیکھ رہی ہوں ، شکر ہے تُم نے پانچ دس ڈالر نہیں مانگے ” وہ پھر ہنسی
اسی اثنا میں مجھ سے اگلا مسافر کاؤنٹر سے رخصت ہو گیا ۔
میں نے ہلکی سی کپکپاہٹ کے ساتھ اپنا پاسپورٹ کاؤنٹر پر موجود نیلی آنکھوں والے شدید صحت مند اہلکار کی طرف سرکا دیا ۔
” مواقع کی سرزمین پر ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں مسٹر عبادالرحمان ( اُس نے میرا نام جیسے پکارا تھا وہ میں نہیں بتاؤں گا ) سامنے آپ کی میزبان آپ کی منتظر ہیں ” میں نے سامنے دیکھا اور پھر گھبرا کر پیچھے دیکھا ۔ میرے پیچے ایک لاابالی سا سیاہ فام نوجوان کانوں میں ٹُوٹیاں لگائے باقاعدہ دھیمے دھیمے رقص میں مصروف تھا ۔
سامنے بینچ پر وہ قناعت کا مطلب جاننے کے لیے بے تاب بیٹھی تھی ۔ یہ سب چند سیکنڈز کی بات تھی ۔ میرے کانوں میں شدید صحت مند گورے کے خوش آمدید پر مبنی پیغام کے فوراٌ بعد پاکستان پوسٹ آفس کے رسیدی ٹھپے جیسی لیکن کچھ ہلکی آواز آئی اور پاسپورٹ واپس میرے ہاتھ میں تھا ۔
میرے قریب قریب اپنے پاکستانی وفد میں سے کوئی بھی نہیں تھا لہذا اُس بینچ پر جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ، ویسے کوئی پاکستانی ہوتا بھی تو میں نے کون سا اُس کے پاس بیٹھنا تھا ، حسب وعدہ قناعت کا مطلب بھی تو بتانا تھا 🙂 اب تک میں اُس کا نام بھی نہیں جانتا تھا ۔
میں نے پاسپورٹ کو دودھ والی پولی تھین تھیلی میں ڈال کر سلیقے سے واپس بیگ میں رکھتے ہوئے اُس سے پوچھا کہ میرے باقی پاکستانی ساتھی کہاں ہیں ؟
” میں تمھاری سیکرٹری ہوں کیا ؟ اخلاقاً پہلے تمھیں میرا نام پوچھنا چاہیے ” اُس کے لہجے میں میٹھا سا غصہ تھا .
نام تو تم نے بھی اب تک مجھ سے نہیں پوچھا ، میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا
” جب مجھے تمھارے پاسپورٹ پر لگے اکلوتے ویزے کی خبر ہے تو کیا نام نہیں معلوم ہو گا ؟ تُم ای بیڈ Ebad ہو لیکن پاسپورٹ پر غلطی سے آ بیڈ Abad لکھا ہوا ہے ۔” اُس نے مجھے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ۔ مجھے اب خوف سے زیادہ کچھ وی آئی پی ٹائپ فیلنگ ہونے لگی تھی ۔
میں نے اُس کے اشارے کی سمت دیکھا تو اپنے گروپ کے چند لوگ مجھے وہاں کھڑے نظر آئے لیکن وہ پورے انیس نہیں تھے ۔ دس گیارہ افراد لگ رہے تھے ۔
میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ تو کم ہیں باقی کہاں ہیں ۔
” کم از کم پانچ گھنٹے تمھیں اُن کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ تمھارے سات ساتھیوں کو روک لیا گیا ہے ، معمول کی بات ہے اور ہاں وہ ” قناعت ” کیا چیز ہوتی ہے ؟ اُسے اچانک یاد آ گیا ۔
” تھوڑا یا زیادہ جتنا مل جائے اُس کو کافی سے زیادہ سمجھنا ، قناعت ہوتی ہے ” میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
تو اگر تمھیں مشکوک سمجھ کر ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا جاتا تو تمھیں کراچی سے دوحہ اور دوحہ سے نیویارک تک تھکا دینے والے سفر کے علاوہ کیا ملا کہ اپنی قناعت کے قصیدے گا رہے ہو ؟ اُس کے لہجے میں واقعی تجسس تھا
” وہ ہم مشرقی مرد کچھ شرمیلے ہوتے ہیں تو میں کُھل کر تو نہیں بتا سکتا لیکن امریکہ میں قدم رکھتے ہی کوئی انتہائی خوبصورت انسان خود آ کر یہ بتائے کہ وہ میرے بارے میں کتنا زیادہ جانتا ہے تو تُم سوچ بھی نہیں سکتی کہ ایک عام پاکستانی ” نوجوان ” اس صورتحال میں قناعت کے مارے خوشی سے پاگل بھی ہو سکتا ہے ۔” میں نے شرماتے ہوئے جواب دیا ۔
اب جو قہقہہ اُس کے حلق سے بلند ہوا وہ بہت بلند تھا ۔
اپنی دو باتوں کی اصلاح کر لو مسٹر ای بیڈ ، پہلی یہ کہ میں انسان نہیں ہوں اور دوسری یہ کہ تُم ” نوجوان ” نہیں ہو ، اُس کا لہجہ کچھ سرد اور پراسرار سا ہو گیا تھا ۔
تمھارا دوست فرحان تمھیں ڈھونڈ رہا ہے جاؤ میرا نام ایلینا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ تُم جب پاکستان واپس جاؤ تو اپنے ہم وطنوں کو ضرور بتاؤ کہ امریکہ اور امریکی قوم کتنے عظیم ہیں ۔
اور ہاں ” قناعت ” سے کام لینا ، کہیں اگلی نماز میں جلدی ملاقات کی دعائیں نہیں شروع کر دینا ، اُس نے اپنی نارتھ فیس کی جیکٹ کی زپ بند کر کے اٹھتے ہوئے کہا ۔
” سر عباد ! آپ یہاں بیٹھے ہیں ، میں سمجھا آپ کو بھی روک لیا گیا ہے ” یہ سر فرحان تھے ، جو اِس ٹور میں میرے ساتھ نہ ہوتے تو وہ دن اتنے خوبصورت نہ ہوتے اور جو میری تصویریں ہیں وہ بھی نہ ہوتیں 🙂
میں نے سر فرحان کی آواز سُنتے ہی گھبراتے ہوئے بینچ پر اپنے پہلو میں دیکھا تو وہاں میرا اتوار بازار سے خریدا گیا مٹیالے رنگ کا بیگ اکیلے بیٹھا میرا منہ چڑا رہا تھا