کراچی ( نمائندہ خصوصی ) صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ عید کے دوران ٹرانسپورٹرز نے عوام سے مقررہ کرایوں سے زیادہ کرایہ وصول کیا تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، انہوں نے کہاکہ کسی کو من مانی نہیں کرنے دی جائے گی ۔ اگر ٹرانسپورٹرز کو اس معاملے پر خدشات ہیں تو حکومت سے رابطہ کریں ۔
انہوں نے کہا کہ عید پر اپنے پیاروں سے ملنے لوگ اپنے آبائی علاقوں، شہروں اور گاؤں کو جاتے ہیں ہماری کوشش ہے کہ مہنگائی کے اس طوفان میں عام شہری پر مزید بوجھ نہ پڑے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی وزیر محنت سعید غنی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سلمان عبداللہ مراد کے ہمراہ سندھ آرکائیوز کمپلیکس میں آج ایک پریس کانفرنس سے خطاں کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کا طوفان ہے جس طرح تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اس سے ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے اور عوام سخت پریشان ہیں ۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ سندھ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ عوام پر مہنگائی کے بوجھ کو کم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب سندھ کابینہ میں پیپلز بس سروس کے کرایوں میں اضافے کا ایجنڈا آیا تو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بسوں کے کرایوں میں اضافہ کا ایجنڈا موخر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت اس پر سبسڈی برداشت کرے گی ۔انہوں نے کہا کہ الیکٹرک بسوں کے دو روٹس کا آغاز کردیا ہے، کل ( منگل) سے الیکٹرک بس سروس کا ایک اور تیسرا روٹ شروع کیا جا رہا ہے۔ جوکہ پاور ہاؤس چورنگی سے سہراب گوٹھ، شاہراہِ پاکستان سے تین ہٹی، گرو مندر، ایم اے جناح روڈ اور ٹاور سے گذرتا ہوا کیماڑی پر اختتام پذیر ہوگا۔
صوبائی وزیر اطلاعات سندھ نے مردم شماری کے معاملے پر کہا کہ سندھ حکومت کو مردم شماری پر شدید تحفظات ہیں اور وفاقی حکومت سے اس معاملے پر مسلسل رابطے میں ہیں ۔ وفاق کو تحفظات سے آگاہ کیا ہے ، جس پر وفاق نے یقین دہانی کروائی ہے کہ سندھ حکومت کے خدشات کو دور کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے حتمی نتائج سے پتہ چلے گا کہ سندھ حکومت کے تحفظات کو کس حد تک دور کیا گیا۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سندھ حکومت نے رواں سیزن کے لئے گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کی ہے ، دو روز قبل سوشل میڈیا پر 3 ہزار روپے فی من کا جعلی نوٹیفکیشن وائرل کیا گیا ، اس معاملے کی تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے لوگوں نے سیکریٹری خوراک کے جعلی دستخط سے نوٹیفکیشن بنا کر وائرل کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگوں کی سوچ دیکھیں لوگوں کو گمراہ کرنے کی مجرمانہ سازش کی گئی ۔
اس جعلی نوٹیفکیشن کا مقصد یہ تھا کہ آبادگار اور کسان سرکار کو اپنی گندم نہ دیں اور نجی کاروباری افراد کو گندم دیں تاکہ صوبہ گندم کا بحران پیدا ہو ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اور ایف آئی اے کو اس سازش میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے پاکستان میں سب سے زیادہ گندم کی امدادی قیمت مقرر کی ہے ، گندم کی خریداری کا عمل جاری ہے ، صوبائی وزیر خوراک مکیش کمار چاولہ اس عمل کی خود نگرانی کر رہے ہیں ۔ سندھ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ خریداری کا ٹارگٹ پورا کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں جہاں بھی شکایات ہیں ان کا فوری ازالہ کیا جا رہا ہے ۔ اب تو ضلعی سطح پر گندم کی نقل و حمل کو کنٹرول کیا جا رہا ہے ، تاکہ گندم سندھ سے باہر منتقل اور اسمگل نہ ہو سکے ۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی امدادی قیمت سندھ کے عوام کے لیے ہے افغانستان کے عوام کے لیے نہیں ہے۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان اور ذلمے خلیل زاد دونوں چور اور ٹھگ آج ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کا اہم کردار ذلمے خلیل زاد پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے ، عمران خان اور ذلمے خلیل زاد میں دو باتیں مشترکہ ہیں ۔ عمران خان طالبان کا حمایتی ہے تو ذلمے خلیل زاد بھی طالبان کا حمایتی ہے ، عمران خان پر منی لانڈرنگ کے مقدمات ہیں اور زلمے پر بھی منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات ہیں ۔ ذلمے خلیل زاد نے اپنی بیگم کے اکائونٹ میں ڈالرز منتقل کئے۔ جس کی امریکی حکومت تحقیقات کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ذلمے خلیل زاد کا پاکستان سے کیا تعلق ہے اور اس کو کس نے اختیار دیا ہے کہ پاکستان کے انتخابات پر حکومت کو مشورے دے ۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان خود امپورٹڈ بن گیا ہے ، تحقیقات کی جائیں کہ عمران خان نے بیرون ممالک کے کس کس سینیٹر اور پارلیمنٹرین سے رابطے میں رہا ہے اور بالخصوص امریکہ کے پارلیمنٹرین کو منتیں کر رہا ہے کہ انہیں دوبارہ اقتدار میں لایا جائے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ عمران خان کا بیرونی سازش کا بیانیہ کہاں گیا، وہ امریکہ کی غلامی کی باتیں کر رہا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ملک کے اداروں اور ہمارے معاشرے کی اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے۔
اور پاکستان کے اداروں اور معاشرے کو تقسیم کردیا ہے ۔ آج اس کے باعث سپریم کورٹ کے دو حصے ہوگئے ہیں اور سپریم کورٹ میں دو سوچیں پائی جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایک سوچ کہتی ہے کہ وہ سب کچھ ہیں سب اختیارات ان کے پاس ہیں ، یہ سوچ آئین ، قانون اور پارلیمینٹ کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ کے اختیارات کو ماننے کے لیے رضامند ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ جو قانون سازی کر رہی ہے اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں ڈویژن پر ہمیں دکھ ہوتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتی ہے ۔ ہم نے کبھی بھی عدالت سے لڑائی نہیں کی اور نہ ہی عدالتوں کے خلاف سازشیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ افتخار چودھری پر ہمارے سو تحفظات تھے لیکن ان کی بحالی کی جدو جہد میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ فعال کردار ادا کیا ،
بم بلاسٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی شہادتیں ہوئیں ۔ پھر وہی سپریم کورٹ ہے ، جس سے پاکستان پیپلز پارٹی کو انصاف نہیں ملا۔ ایک مائنڈ سیٹ ہے ، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی دو مرتبہ حکومت گرائی گئی ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن ان کو انصاف نہیں ملا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ افتخار چودھری اور اس کے بعد جو بھی چیف جسٹس آئے انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بغض رکھا ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار چیف جسٹسز کے دور میں سپریم کورٹ میں جج صاحبان کو ایلیویٹ کیا گیا ،اس میں ایک بھی سندھی زبان بولنے والے جج کو نہیں لیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے عوام سوال کر تے ہیں کہ کیوں سپریم کورٹ کو سندھی بولنے والے جج صاحبان کے لیے نوگو ایریا بنا دیا گیا ہے کیا سندھی بولنے والے ججز کا سپریم کورٹ میں داخلہ ممنوع کردیا گیا ہے؟ ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ سے پانچویں اور چھٹے نمبر کے ججز کو ایلویٹ کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی وفاق کی سوچ رکھتی ہے ہم تعصب میں یقین نہیں رکھتے ، لیکن جن لوگوں کے مینڈیٹ سے آئے ہیں ان کے لئے آواز بلند کرنا ہماری ذمہ داری ہے.
اس موقع پر صوبائی وزیر محنت سعید غنی نے کہا کہ ماضی میں فوج مارشل لاء لگاتی تھی ، اب جوڈیشنل مارشل لاء لگا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خطرناک بات یہ ہے کہ مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ آئینی معاملات پر فل کورٹ بینچ بنایا جائے لیکن ایک سال کے دوران اس مطالبہ پر ایک مرتبہ بھی عمل نہیں کیا گیا ۔ کیا وجوہات اور اسباب ہیں کہ سپریم کورٹ کے قابل ترین جج صاحبان ، جن پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا ، ان کو آئینی مسائل پر بننے والے بینچز میں شامل نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں تمام اداروں کا اپنا اپنا دائرہ اختیار ہے اور تمام اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر اپنا اختیار استعمال کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اگر کہیں اپنے دائرہ اختیار سے ادھر ادھر ہوتا ہے تو سپریم کورٹ ان کو گلے سے پکڑ کر دیوار میں گاڑھ دیتا ہے اور اس پر جبری طور پر زبردستی فیصلے کرواتا ہے ۔ سعید غنی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کسی بھی طور پر سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں ۔ آئین پاکستان میں الیکشن کمیشن کے لیے الگ چیپٹر ہے اور سپریم کورٹ کے لئے الگ چیپٹر ہے ۔ ان دو اداروں کو آئین میں خودمختار حیثیت حاصل ہے ، لیکن سپریم کورٹ روزانہ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے ۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک خودمختار ادارا ہے وہ وزارت خزانہ کی ہدایات کے بغیر خزانہ استعمال کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ لیکن سپریم کورٹ غیر آئینی طور پر براہ راست اسٹیٹ بینک کو ہدایت جاری کر رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کردیں ۔ انہوں نے کہا کہ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ جوکہ ان تمام اداروں کی ماں ہے جس کی کوک سے تمام ادارے جنم لیتے ہیں ۔ آئین بنانے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے ، کسی اور ادارے کو نہیں ۔ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو اپنے پیروں تلے روندا ہے۔ جب کہ وہ ابھی قانون بنا ہی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ آئین کا ایک نکتہ ادھر سے ادھر کر سکے وہ کبھی آمروں کو آئین میں ترمیم کی اجازت دے دیتا ہے تو کبھی اپنے فیصلوں کے ذریعے آئین میں ترمیم کردیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس ، سپریم کورٹ آف پاکستان نہیں 17 ججوں پر سپریم کورٹ آف پاکستان مشتمل ہے ، چیف جسٹس 17 ججوں میں سے ایک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس جو کچھ کر رہا ہے اس کا سپریم کورٹ کے رولز میں ذکر ہی نہیں ، چیف جسٹس کے جو کچھ کر رہا ہے اس کا شکار ریاست پاکستان اور اس ملک کے ادارے ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سوموٹو ایکشن ، بینچز کی تشکیل کو ریگیولیٹ کیا جا رہا ہے ، جس کا مطالبہ کئی سالوں سے کیا جا رہا تھا ۔اس قانون کے تحت سپریم کورٹ کا چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز مل کر سو مو ٹو اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ کریں گے تو اس میں کیا خرابی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس مظاہر کے ریفرنس کے معاملے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان سے گذرنا پڑے گا ، لیکن جب جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف متنازعہ ریفرنس آیا تو اس کو فوری طور پر سنا گیا اور فیصلہ بھی آگیا ، اس وقت ان کو خیال نہیں آیا ۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس کو آئین کی خلاف ورزی اور کرپٹ جج جس پر ریفرنس دائر ہیں کی سرپرستی کرنے پر فوری استعفیٰ دے دینا چاہیے اگر وہ استعفیٰ نہیں دیتے تو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو فوری طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کر کے جن جج صاحبان کے خلاف ریفرنس دائر ہوئے ہیں ان کو ٹیک اپ کرنا چاہیے اور آئین کے تحت ان کو آگے بڑھانا چاہیے ۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس نے آئینی طریقے سے بنائے ہوئے قانون کو جس طرح سے اپنے پیروں تلے روندا ہے ، جوکہ جوڈیشل مارشل لاء کے مترادف ہے اس معاملے پر پارلیمنٹ کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ انہوں نے آئین کی پاسداری اور حفاظت کا حلف اٹھایا ہے اگر آئین کی پاسداری کرتے ہوئے نااہل ہو جاؤں اور 6 ماہ کے لیے جیل چلا جاؤں تو زیادہ مطمئن ہوکر جاؤں گا ۔