اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 بل نظرِثانی کیلئے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیااور کہا ہے کہ مذکورہ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ،بل کی درستی کے بارے میں جانچ پڑتال کے لیے دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا اور کہا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔بیان کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ مذکورہ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے لہذا بل کی درستی کے بارے میں جانچ پڑتال کے لیے دوبارہ غور کرنا چاہیے، اس لیے واپس کرنا مناسب ہے۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے اور بینچ کی تشکیل کا اختیار عدالت عظمی کے 3 سینئر ترین ججوں کے پاس ہو گا جبکہ اس وقت یہ اختیارات چیف جسٹس کو حاصل ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیل، ایڈوائزری، نظرثانی اور بنیادی سماعت کا اختیار دیتا ہے اور مجوزہ بل آرٹیکل 184 تھری عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے، یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا یہ مقصد آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔انہوںنے کہاکہ سوال تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی، آئین ایک اعلیٰ قانون ہے، قوانین کا ماخذ ہے، آئین کوئی عام قانون نہیں بلکہ بنیادی اصولوں، اعلی قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے، آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 پر اسی وقت سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔صدر نے کہا کہ مملکت ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کر دی ہے، آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کے لیے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے۔انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے، آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔صدر مملکت نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے کےلئے دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں اور اداروں کو اختیار میں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کےلئے آرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا اور اسی آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا۔انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے، آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 142-اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے، فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔ایوان صدر کے بیان کے مطابق انہوں نے کہا فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔صدر مملکت نے مجوزہ بل واپس کرتے ہوئے کہا کہ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور بل کے ان پہلوں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔