کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی واٹر سیوریج سروسز امپورمنٹ پروجیکٹ میں پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تبدیلی سے عالمی مالیاتی اداروں کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جو جلد خودمختار ہونے کے بعد مالی طور پر محتاجی کا امکان ہے۔ ترقیاتی کام کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کے فنڈز اور سرمایہ کاری کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے،اس موقع پر چیف سیکریٹری سندھ ڈاکٹر سہیل راجپوت کے دستخط سے خط نمبر NO.SO1(SGA&CD)-3/14/2016 بتاریخ 30 مارچ 2023ء کو محمد رفیق قریشی گریڈ 19،ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر فنانس کا تبادلہ پروجیکٹ ڈائریکٹر KWSSIP میں کردیا ہے اور سید صلاح الدین کی اضافی ذمہ داری واپس لے لی گئی ہیں۔ سید صلاح الدین کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینجگ ڈائریکٹر و چیف ایگزیکٹو ہیں۔ تعینات ہونے والے افسر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ واٹر بورڈ میں چلنے والے کراچی سسٹم(فریال تالپور کی زیر نگرانی چلنے والا سسٹم) کا حصہ ہے اور سسٹم کی کرتا دھرتا کی ایما پر سندھ حکومت نے تعینات کیا ہے۔ کراچی سسٹم فریال تالپور کے ذریعے واٹر بورڈ کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ قبل ازیں KWSSIP کے پہلے پروجیکٹ ڈائریکٹر ایوب شیخ ہیں وہ واٹر بورڈ میں گریڈ 20 کے سینئر ترین افسر ہیں جنہیں کراچی سسٹم کا حصہ نہ ہونے پر او ایس ڈی بنا دیا گیا اور وہ بغیر کام کیئے اپنے فرائض ادا کررہے ہیں۔ ادارے کے افسران کا کہنا ہے کہ ایوب شیخ جیسے ٹیکنکل افسرکی خدمات حاصل کرنے کے بجائے ٹیکنکل عہدہ پر ایک انتظامی افسر کو تعینات کرنا مذاق سے کم نہیں،وہ بھی کراچی سسٹم کا اہم رکن ہے۔خدشات ظاہر کیئے جارہے ہیں کہ کراچی واٹر سیوریج بورڈ کے ترقیاتی کاموں کے علاوہ تمام کام ٹھپ ہو سکتا ہے جبکہ پروجیکٹ میں جاری سروے،کنسلٹنٹ، ترقیاتی منصوبہ، پرائیویٹ پارنٹر شپ پروجیکٹ، سیوریج،گاڑیوں کی خریداری،پروجیکٹ امپورمنٹ یونٹ، گولکل پیپنگ سسٹمGIS، MIS، ڈیٹا بیش سسٹم،مینجمٹ انفارمیشن سسٹم،ہیومن رسیورسس ڈیپارٹمنٹ کی تربیت، ہاینڈرنٹس کی نگرانی کا کنٹرول رومز کا قیام،کنزومر سینٹر کا قیام،پبلک پارنٹر شپ پروجیکٹ اربوں روپے مالیت کی ست روئی کا شکار ہوسکتا ہے،اور ادارہ میں نئے سرے سے ریفارمز کے ساتھ واٹر بورڈ کا نیا ماسٹر پلان سمیت دیگر کام بھی ٹھپ یا ست روئی کا شکار ہوسکتا ہے۔بعض افسران کی پروجیکٹ ڈائریکٹریٹ سے تبادلہ و تقرری کی اطلاعات بھی ہیں۔کراچی کی مقامی حکومتوں کے لئے کارکردگی پر مبنی گرانٹ(ورلڈ بینک کی سرمایہ کاری 140ملین ڈالریعنی40ارب 20کروڑروپے)،پروجیکٹ میں شامل، پانی کا اہم منصوبہ K-4 پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد شہر میں فراہمی آب کا نظام و پروجیکٹ شامل ہے۔ سیوریج ٹرٹمنٹ پلانٹس کا منصوبہ، صنعتی زون میں ٹریٹمنٹ کا نظام واضح کرنا شامل ہے۔ KWSSIP نے 18جوڑی سیور کلینر میشن 70 کروڑ روپے مالیت سے خریداری کی تھی۔ مذید 18جوڑی سیورکلینر میشن کی خریداری کا ٹھیکہ معراج اینڈ کمپنی کو دیا گیا ہے۔ امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے ساتھ ایل سی نہ کھلنے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوچکا ہے۔کراچی کی مقامی حکومتوں کو سالانہ تین طرح سے امداد مہیا کی جائیں گی، تاکہ مرحلہ وار اپنے اداروں کی صلاحیت اور مقامی مینجمنٹ میں بہتری لاسکیں۔ پہلی امداد، خود مقامی حکومت کی نشاندہی پر انسانی وسائل اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ہوگی، دوسری امداد انفراسٹکچر میں ترقیاتی سرمایہ کاری کے لئے تاکہ بتدریج پیشہ ورانہ ادارہ جاتی صلاحیتوں کے اعلی معیار تک پہنچا جاسکے، انفرسٹکچر، ترقیاتی سرمایہ کاری امداد،مرحلہ وار متعارف کرائی جائے گی، جس کا آغاز پروجیکٹ سے کردیا گیا ہے جبکہ اس امر کی یقین دہانی کی جاچکی ہے کہ مقامی حکومتوں میں مخصوص بنیادی نظام قابل قبول حالت میں موجود ہے۔ پروجیکٹ کے پہلے سال میں صرف انسانی وسائل،پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کی بہتری کے لئے امداد دستیاب ہوگی جبکہ دوسرے سال سے اس کے ساتھ انفراسٹرکچر، ترقیاتی سرمایہ کاری امداد بھی دستیاب ہوگی۔ مقامی اداروں کی انتظامی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں بہتری کے ساتھ ساتھ، گرانٹ میں مرحلہ وار بتدریج اضافے سے سرمائے کا موثر استعمال ہوسکے گا۔واضح رہے کہ سندھ حکومت کی نااہلی،بدانتظامی کے باعث کراچی کی صنعت بند ہو رہی ہے، ٹرٹمنٹ کے بغیر برآمدات خطرے میں پڑگئی ہے۔کراچی کے چھ صنعتی زون میں کمبائن انفرلیٹ ٹرٹمنٹ پلانٹ(CETP) کی منصوبہ بندی کردی گئی ہے۔ اس کے پروجیکٹ ڈائریکٹر امتیاز احمد کی چار ماہ قبل ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد باوجود کوئی نئی تقرری نہ ہوسکی۔وزیر اعلی سندھ کی ہدایت پر منصوبہ ختم ہونے اور اس کے واجبات کی ادائیگی کا سلسلہ خاموشی سے جاری ہے۔ منصوبہ تاخیرکے باعث سو فیصد اضافہ کے ساتھ لاگت 34 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس بارے میں چھ کے بجائے آٹھ مقامات پر زمین کی بھی الاٹمنٹ اور اس کے دیگر رکاوٹ کو دور کردیا گیا ہے۔ منصوبہ کے تحت 2017ء میں آغاز ہوکر 2019-20ء میں تکمیل ہوجانا تھا لیکن افسوس منصوبے کا 2022ء میں بھی آغاز نہ ہوسکا۔منصوبے پر67 فیصد سندھ حکومت اور 33 فیصد وفاقی حکومت کی وزرات کامرس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈز کو ادا کرنا تھی جبکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) نے مائی کولاچی روڈ، سولجر بازار، نہر خیام، ریلوے لائن نالے کے قریب ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی لگانے کا وعدہ کیا تھا۔اس کے علاوہ ہاورن آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ ون، ماری پور نامکمل منصوبہ بھی KWSSIP نے پبلک پارنٹر شپ کے ذریعے تیار کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ حب کنال اور ہارون آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ سے نکلنے والے صاف پانی کو قابل استعمال بنانے کرکے صنعتوں کو فروخت کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ 65 ملین گیلن پانی یومیہ ہالے جی نہر سے پروجیکٹ پر کام جاری ہے۔ 65 ملین گیلن یومیہ کا منصوبہ سندھ حکومت کے فنڈز سے زیر تعمیر ہے اور سیوریج ٹریٹمنٹ VI ملیر کا منصوبہ بھی پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے ذریعے بنایا جارہا ہے۔ اس بارے میں ایم ڈی واٹر بورڈ سید صلاح الدین کا کہنا ہے کہ یہ اضافی عہدہ تھا اور اتنی جلدی واپس ہونے کی توقع نہیں تھی۔ حکومت نے کسی نہ کسی افسرکو تعینات کرنا تھا وہ ہوگیا ہے(یہ اور بات ہے کہ وہ کراچی سسٹم کا حصہ ہے جس کے باعث خدشہ ہے کہ پروجیکٹ میں ہیر پھیر کی انتہا ہو گی)۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر رفیق قریشی سے موقف کے لئے موبائل پر رابطہ کیا لیکن وہ نہ ہوسکا۔