اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )قومی اسمبلی اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے تمام متعلقہ اداروں کی تجاویز اور خدشات کے بعد تفصیلی فیصلہ جاری کیاالیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے تحت شیڈول واپس لے کر 8 اکتوبر تک انتخابات کا اعلان کیا:اس کے بعد پھر اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جایا گیا اس کے بعد اس معاملے پر لارجر بینچ کی بجائے چیف جسٹس نے اپنی صوابدید پر بینچ تشکیل دے دیا جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض سامنے آیااگلے روز چیف جسٹس نے پانچ رکنی بینچ تشکیل دے دیا اس کے بعد پھر اختلافی نوٹ سامنے آگئے دو صوبائی اسمبلی کو ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اس کے بعد الیکشن کروانے کی جلدی کی جا رہی ہے آئین کے تحت انتخابات پورے ملک میں نگران حکومتوں کی ماتحت ہوتے ہیں کیس عدالت میں آیا تو پہلے مرحلے میں نو رکنی بینچ بنا جسٹس ارجا، الحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض کیا گیا بعد میں عدالت کو بتایا گیا کہ دونوں ججز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے اگلے دن چیف جسٹس نے سات کے بجائے پانچ ارکان کا بینچ بنا دیاجسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے دو معزز ججز جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا دونوں نے تحریری فیصلہ دیا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ نہیں جسے ازخود نوٹس کے تحت سنا جائےدونوں ججز کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہم نے موقف اپنایا کہ پینچ کا چار کے مقابلے میں تین ججز کا فیصلہ ڈس مس ہو گیا ہے یہ درخواستیں قابل سماعت نہیں رہیںججز نے اپنے تفصیلی فیصلے میں واضع کیا کہ سوموٹو کیس 1/2023 تین کے مقابلے میں چار ججز کی اکثریتی رائے سے ڈس مس ہو گیا ہے الیکشن کمیشن کے سامنے وزارت خزانہ، وزارت دفاع اور وزارت قانون کے جوابات سامنے آنے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا_ہم نے شروع دن سے فل کورٹ بنانے کی درخواست کی لیکن اسے مسترد کر کے ان دو ججز پر مشتمل بینچ بنا دیا گیا جو پہلے اعتراض کے بعد خود کو کیس سے الگ کر چکے تھےاسی اثناء میں سینیئر موسٹ جج قاضی فائز عیسی نے 15 مارچ کو ازخود نوٹس کے حوالے سے تین رکنی بینچ کا فیصلہ سنایا آصف سعید کھوسہ نے 2019 میں آخری فل کورٹ میں ازخود نوٹس کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے سپری۔ کورٹ میں ازخود نوٹس میں سپریم کورٹ پورے ملک کی بیوروکریسی کو بلا کر ہر طرح کے انتظامی اختیارات بھی استعمال کر رہی تھی اسی لیے فل کورٹ نے اس حوالے سے رولز بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد آج تک فل کورٹ کا اجلاس نییں ہو سکا