کراچی(نمائندہ خصوصی) پاکستان میں بینکوں کے نان پرفارمنگ لون میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ خسارے میں جا رہے ہیں۔رپورٹس کے مطابق کچھ بینکوں نے اپنے صارفین کو پیشکش کی ہے کہ وہ اپنی اصل ادائیگی چند ماہ کیلیے موخر کر دیں یا اپنا قرض ری شیڈول کرا لیں تاکہ مالیاتی اداروں کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے جیسا کچھ عرصہ قبل یورپ میں ہوا، اس صورت میں بینک اپنے صارفین کو بچا سکیں گے جو ان کی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔اسٹیٹ بینک نے اطلاع دی ہے کہ دسمبر میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کے غیر فعال قرضے تین فیصد یعنی 25.53 ارب روپے اضافے سے 938.67 ارب روپے ہو گئے ہیں۔ 30 ستمبر 2022 کو ختم ہونے والی گزشتہ سہ ماہی میں یہ قرضے 913.14 ارب روپے تھے۔اس ضمن میں عارف حبیب لمیٹڈ کی ماہر اقتصادیات ثنا توفیق نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں ٹیکسٹائل شعبہ بینکوں کا سب سے بڑا نادہندہ بنا، یہ شعبہ تاحال پاکستان کا سب سے زیادہ برآمدات کرنے والاشعبہ ہے،پاکستان کی برآمدی آمدنی کا 60 فیصد ٹیکسٹائل پر مشتمل ہے۔انھوں نے کہا کہ رواں مالی سال ملک میں معاشی بحران کے دوران غیر فعال قرضے بینکوں کیلیے ایک بڑی پریشانی بن گئے ہیں،انھوں نے کہا کہ نجی اور کارپوریٹس قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بری طرح کمزور پڑ گئی ہے، مارچ میں تاریخی افراط زر 35.4 فیصد ریکارڈ کی گئی،بلند شرح سود بھی اس کے ساتھ مستقل ہے،مذکورہ سہ ماہیوں میں اس صورتحال اس وجہ سے تشویشناک رہی۔