بدنام زمانہ لیاری گینگ وار کی ذیلی تنظیم کالعدم "امن کمیٹی” لیاری میں بڑی تیزی سے پاپولر ہورہی تھی لیاری کے اعلان کردہ حکومتی منصوبوں پر حکومتی مشینری اور وزراء صاحبان اپنے اپنے کمیشن لے کر اگلی پیدا گیری کی تلاش میں نکل پڑے تھے۔ ایسے میں امن کمیٹی زرداری حکومت کے اعلان کردہ ترقیاتی پیکیج میں سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کیلئے دن رات مصروف ہوگئی تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری اور بینظیر بھٹو میڈیکل کالج کی تعمیرات میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے تعمیرات شروع ہوئی تو ایسے میں PPP سٹی ایریا 110 کے صدر یوسف ناز نے اسپنسر آئی ہسپتال کے معاملات سامنے رکھتے ہوئے مشورہ دیتے ہوئے کہا حبیب جان اسپنسر آئی اسپتال کے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف ملنا چاہتے ہیں۔
ملاقات طے ہوئی اور دوسرے دن ہم بمعہ امن کمیٹی کے وفد ظفر بلوچ اور دیگر کے ہمراہ ڈاکٹر بیربل کے دفتر میں موجود تھے۔ ڈاکٹر بیربل سے تعارف تو بہت پہلے سے تھا اسپنسر آئی اسپتال ہمارے گھر سے بمشکل دس منٹ کی پیدل مسافت پر ہونے کی وجہ سے ہر دوسرے دن اسپتال میں موجود کسی نہ کسی اسٹاف سے آتے جاتے علیک سلیک ہونا معمول کی بات تھی۔ ان دنوں ڈاکٹر بیربل ہمارے علاقہ سید محمود شاہ روڈ پر جزوقتی شام میں نجی کلینک میں لیاری کے لوگوں کو دیکھا کرتے تھے۔انگریز کے دور میں ڈاکٹر اسپنسر کا قائم کیا گیا آئی اسپتال نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا کے چند ایک بڑے ہسپتالوں میں شمار ہوتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے آہستہ آہستہ حکومتی مفاہمتی پالیسیز کی وجہ سے ایشیا کا معروف آئی اسپتال کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر بیربل نے بغیر تمہید باندھے شکوہ کرتے ہوئے کہا حبیب جان اسپنسر آئی ہسپتال بھی لیاری میں واقع ہے اور آپ لوگ ماشاءاللہ لیاری کی بہتری کیلئے بہت تیزی سے کام کررہے ہیں لہٰذا کچھ نظر عنایت ادہر آئی ہسپتال پر بھی ہوجائے۔ مختصر سے وقت میں ڈاکٹر بیربل کے دفتر میں موجود پیرا میڈیکل اسٹاف نے آئی ہسپتال کی تمام روئیداد سنا ڈالی۔امن کمیٹی کے روح رواں ظفر بلوچ شہید کے مشورے سے یوسف ناز کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے اسپنسر آئی ہسپتال کی بہتری کا وعدہ کرلیا۔ ہسپتال میں موجود متحدہ سے وابستہ ڈاکٹر صاحبان اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے ہسپتال کی بہتری کیلئے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا ہم اس نیک کام میں آپ کے ساتھ ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے فقط چند ہفتوں میں اسپنسر آئی ہسپتال فعال ہوگیا کئی سالوں سے کھڑی زنگ آلود موبائل آئی آپریشن بس کو قابل استمعال کیا آپریشن تھیٹر بحال ہوئے اور سب سے بڑھ کر سری لنکا سے آنکھوں کے عطیہ کی ترسیل دوبارہ شروع ہوگئی۔ غریبوں کیلئے فری آئی گلاسز بنک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یاد رہے اسپنسر آئی ہسپتال سندھ اور بلوچستان کے مریضوں کیلئے بڑی امید تھا۔ کئی سال غیر فعال رہنے کے بعد ڈاکٹر بیربل کی کاوشوں اور دلچسپی لینے کی وجہ سے پھر سے غریب مریضوں کیلئے روشنی کا مرکز بن گیا۔
ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ ڈاکٹر بیربل نے 2010 میں ہماری دائیں آنکھ کا مائنر آپریشن کیا تھا اور ان سے ہمارا تعلق چھوٹے بڑے بھائیوں جیسا رہا اور اسپنسر آئی ہسپتال کی بہتری کیلئے جب میڈیکل سپریڈنٹ کی تعنیاتی کا مرحلہ آیا تو ہم ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اور پیپلز پارٹی اور متحدہ کی مخالفت کے باوجود ان کی تعنیاتی کو یقینی بنایا۔ ڈاکٹر بیربل ایک غریب پرور عاجز انسان تھے۔ ہمیشہ سے غریبوں کے علاج معالجے پر پریشان رہتے جب بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا ہسپتال کی بہتری کیلئے مدد مانگی۔۔۔۔ ان کی سادہ طبعیت لالچ اور طمع سے دور ہونے کی وجہ سے ان کے اپنے بہت سارے قریبی لوگ بھی ان سے نالاں رہتے تھے۔ ہمارے منافقانہ ظالم معاشرے میں ڈاکٹر بیربل جیسے اچھے لوگوں کا زیادہ زندہ رہنا بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بیربل کے قاتل وہی ہوسکتے ہیں جن کو ڈاکٹر بیربل کی موجودگی کھٹکتی ہوگی۔ ہم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ ترین افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے اور ڈاکٹر بیربل کے قاتل کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالا جائے۔ ہماری دعا ہے کہ ڈاکٹر بیربل جہاں بھی رہیں ان کی روح مطمئن اور سکون سے رہے گی۔