لاہور (نمائندہ خصوصی ) لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم وپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی پانچ مقدمات میں حفاظتی ضمانت میں 27مارچ تک توسیع کردی،عمران خان نے وکلاءنے اسلام آباد کی عدالت میں درخواستیں دائر ہونے سے متعلق حلف نامہ جمع کروایا جبکہ عدالت نے واضح کیا کہ اگر آپکی درخواستیں زیر سماعت نہ ہوئیں تو پھر نتائج کا سامنا کرنے پڑے گا اور توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع ہوسکتی ہے، دوران سماعت عمران خان نے کہا کہ 40منٹ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑا رہا، میری زندگی خطرے میں تھی پھر ہم واپس آگئے، یہ غیر معمولی صورتحال ہے، میرے اوپر 40دہشت گردی کے کیسز ہیں۔جمعہ کے روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس انوار حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں درج پانچ مقدمات میں حفاظتی ضمانتوں کی درخواستوں کی رجسٹرار آفس کے اعتراض کے ساتھ سماعت کی۔عمران خان کے خلاف تھانہ کھنہ اور رمنا کے دو، دو اور بارہ کوہ تھانے میں ایک مقدمہ ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان عدالت میں پیش ہوئے ۔ سماعت کے آغاز سے قبل عمران خان نے کمرہ عدالت میں کہا کہ جو یہاں کیا وہ کہیں نہیں ہوتا،مجھ پر کتنے مقدمات ہوچکے ہیں۔ جس پر فواد چوہدری نے بتایا کہ مقدمات کی تعداد 41سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ مجموعی طور ہر تعداد 124 سے زیادہ ہیں ۔ سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ عمران خان کی حفاظتی ضمانت 24مارچ اور 27مارچ تک منظور کی گئی تھی ،آج معیاد ختم ہورہی ہے اس لیے عدالت سے رجوع کیا تاہم رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کر دیا کہ عمران خان ان مقدمات میں پہلے حفاظتی ضمانت لے چکے ہیں۔وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات کا علم ہے دوبارہ حفاظتی ضمانت کا سکوپ بہت کم ہے ،ہم پیش ہونا چاہتے ہیں، ہماری بدنیتی کہیں بھی نہیں ہے، عمران کی شدید سکیورٹی خدشات ہیں۔انہی کیسز میں ضمانت لینے اسلام آباد گئے ،18مارچ کو اسلام آباد میں پیشی کے لئے گئے تو وہاں صورتحال بہت مختلف تھی شیلنگ کی گئی ہے اور 40منٹ عمران خان گاڑی میں بیٹھے رہے ۔ وکیل نے کہا کہ عمران خان نے ضمانت کا غلط استعمال نہیں کیا ،اسلام آباد میں عمران خان پر دو نئے مقدمے درج کر دیئے گئے ،جو حالات ہیں جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد فی الحال نہیں جا سکتے ۔ عمران خان سابق سابق وزیر اعظم ہیں اور انہیں سکیورٹی تھریٹس ہیں انکے پاس کوئی سکیورٹی نہیں ہے ۔اس لیے ہم نے پہلے سے لی گئی ضمانت میں توسیع مانگی ہے ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میرے مطابق ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ سامنے ہیں ان پر کیسز ہوتے جارہے ہیں اور ہم سامنا کرنے جا رہے ہیں ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا ۔وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم کل سے اس پر غور کر رہے ہیں لیکن عمران خان کی سکیورٹی کا ایشو ہے ۔عمران خان آج بھی اپنی سکیورٹی کے ساتھ عدالت آئے ہیں ۔ دوران سماعت چیئرمین تحریک انصاف عمران خان روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ جب میں 18 مارچ اسلام آباد گیا تو ٹول پلازہ سے لے کر ہائیکورٹ تک 4:30گھنٹے لگے ،اتنی پولیس اور ایف سی لگا دی کہ پتہ نہیں کوئی مجرم آ رہا ہے ،پتھراﺅ کیا جا رہا تھا ،شیل برسائے جا رہے تھے ، میری زندگی خطرے میں ڈال دی گئی ، ،تمام کوششوں کے باوجود میں متعلقہ عدالت نہیں پہنچ سکا،میں جان بچا کر وہاں سے نکلا۔وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ سرکار کا اس بارے کیا موقف ہے ۔سرکاری وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ کے بجائے اسلام آباد کی عدالت میں جانا چاہیے ۔جس پر عمران خان نے کہا کہ اگر آپ ویڈیو دیکھیں تو میں چالیس منٹ تک جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑا رہا۔اسلام آباد سے واپس آیا تو مزید دہشت گردی کے مقدمے بن گئے۔ عمران خان نے کہا کہ جو میرے ساتھ ہو رہا ہے یہ غیر معمولی صورتحال ہے ،میرے اوپر 40دہشت گردی کے کیسز ہیں ،کبھی سابق وزیر اعظم کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں، میں موٹروے ٹول پلازہ پر پہنچا تو سب کچھ بند کردیا گیا، میری زندگی خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔سابق وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ میری جان خطرے میں ہے، میں جان بچا کر وہاں سے نکلا، میں وہاں سے نکلا تو دہشت گردی کے مقدمات درج کر دیئے گئے، میں آج خفیہ طور پر عدالت میں آیا ہوں۔عدالت نے عمران خان کی درخواست پر دائر اعتراض ختم کردیا ،عدالت نے رجسٹرار آفس کو درخواست پر نمبر لگانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت آدھے گھنٹے تک ملتوی کردی۔دوبارہ سماعت کے آغاز پر وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کی درخواست پر اعتراض ختم ہو چکا ہے۔ عمران خان نے پیر کے روز اسلام آباد میں عدالت میں پیش ہونا ہے، ابھی غیر معمولی سی صورتحال ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے پہلے کس تاریخ کو حفاظتی ضمانت منظور کی تھی، بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 17مارچ کو عدالت نے حفاظتی ضمانت منظور کی تھی، 18کو عمران خان اسلام آباد گئے اور انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کی، عمران خان کو انسداد دہشت گردی عدالت پہنچنے نہیں دیا گیا۔عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سرکاری وکیل اس بارے میں تصدیق کرتے ہیں کہ عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں دائر ہوئیں، سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہمارے علم میں نہیں کہ درخواستیں دائر ہوئیں کہ نہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اس پر نمبر لگا تھا۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ یہ ضمانت کی درخواستیں اسلام اباد کی عدالت میں سٹاف کے پاس موجود ہیں،ہم تو خود سسٹم کے اندر ا رہے ہیں سرکاری وکلا کو مخالفت نہیں کرنی چاہیے ۔ میں نے آج سے پہلے کچھ حفاظتی ضمانت کی توسیع فائنل نہیں کی ،19کو اتوار کی چھٹی تھی ۔میڈیکل ایشوز کی وجہ سے عمران خان لاہور میں قیام پذیر ہیں ۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 21مارچ کو لاہور ہائیکورٹ سے دیگر کیسز میں حفاظتی ضمانت لی گئی،عمران خان پر 100سے زائد کیسز ہیں ۔اس دوران عمران خان نے کہ اکہ 100نہیں بلکہ 140کیسز ہیں ۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ 22مارچ کو ہمارا کوئی کیس نہیں تھا، 23مارچ کی چھٹی تھی، عمران خان عدالت سے آئینی ریلیف مانگ رہے ہیں، 27کو عمران خان نے دیگر کیسز میں اسلام آباد پیش ہونا ہے، یہ عدالت 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کرے، بدنیتی کا عنصر عمران خان کی طرف سے نہیں پولیس کی طرف سے ہے۔18 مارچ سے 24مارچ کے دوران ہمارے چار دن ضائع کیے گئے ،ہماری استدعا ہے کہ ہمیں وہ چار دن دے دیئے جائیں ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تمام کیسز سیاسی نوعیت کے ہیں، عمران خان پر حملہ ہو چکا ہے، اب بھی جان خطرے میں ہے، عمران خان کی عمر 71سال ہے جھوٹ کیسز دائر کیے جا رہے ہیں ،اسلام آباد میں ایک ہی دن کیسز میں پیشی سے بہت سے مسائل نہیں ہوں گے۔عدالت نے عمران خان کے وکیل کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کردی ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ بیان حلفی دیں کہ آپ اسلام آباد کی عدالت میں گئے اور درخواستیں دائر کیں ،آپ بیان حلفی میں لکھیں کہ درخواست دائر ہوئی تھیں مگر اندار جانے نہیں دیا گیا ،آپ کے بیان حلفی کو ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ویڈیو شواہد موجود ہیں اندر جانے ہی نہیں دے رہے تھے۔ عدالت نے عمران خان کو بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جو آپ لکھ کر دیں اس پر عملدرآمد ہو، کب تک آپ بیان حلفی دے دیں گے۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ 5بجے تک ہم بیان حلفی جمع کروا دیں گے ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ بیان حلفی دیں کہ آپکی درخواستیں انسداد دہشتگری عدالت اسلام آباد میں پینڈنگ ہیں ۔عدالت نے سماعت پانچ بجے تک ملتوی کردی۔عمران خان کی حفاظتی ضمانتوں میں توسیع کی درخواستوں پر دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل عمران خان انتظار پنجوتہ نے کہا کہ ہم نے پانچ بیان حلفی جمع کروائے ہیں، عدالت نے وکیل کو بیان حلفی پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی جس پر وکیل نے بیان حلفی پڑھ کر سنایا تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو بھی بیان حلف پڑھنے کی ہدایت کی جس پر عمران خان نے بھی جمع کرایا گیا بیان حلفی پڑھا۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری وکلا نے کچھ کہنا ہے، جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے کچھ نہیں کہنا۔عدالت نے عمران خان کے وکلاءسے کہا کہ ہم صرف ایک گراﺅنڈ پر ضمانتوں میں توسیع تو کرنے لگے ہیں ،ایسا نہ ہو کہ اسلام آباد میں آپکی درخواستیں دائر ہی نہ ہوں، ہم آپ کو وارننگ دے رہے ہیں کہ اگر اسلام آباد کی عدالت میں آپکی درخواستیں زیر سماعت نہ ہوئیں تو پھر آپکو نتائج کا سامنا کرنے پڑے گا اور آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع ہوسکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی پانچ مقدمات میں حفاظتی ضمانت میں 27مارچ تک توسیع کر دی۔جس کے بعد عمران خان اپنی سکیورٹی کے ہمراہ واپس اپنی رہائش گاہ زمان پارک روانہ ہو گئے ۔