لاڑکانہ(. رپورٹ محمد عاشق پٹھان) لاڑکانہ میں ہیومن رائیٹس ڈپارٹمینٹ سندھ کی جانب سے سینٹر فار میڈیا ڈویلپمنٹ کے تعاون سے لاڑکانہ پریس کلب میں "پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں انسانی حقوق کے مسائل کو کس طرح کور کیا جائے” کے موضوع پر ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا، ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خاص کمشنر لاڑکانہ گھنور علی لغاری نے نے کہا کہ سندھ ہیومن رائٹس ڈپارٹمینٹ صوبے میں بہتر کام کر رہا ہے اور اس ادارے نے انسانی حقوق سے متعلق بہت سے مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس میں انسانی حقوق کے لیے سریندر ولاسی کی خصوصی کاوشیں شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ ہیومن رائٹس کی جانب سے صحافیوں کے لیے آگاہی سیشنز کے انعقاد سے شعبہ صحافت میں بہتری آئے گی اور نوجوان صحافیوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا، امید ہے کہ مستقبل میں بھی ایسی ورکشاپس کا انعقاد ہوتا رہے گا، انہوں نے کہا کہ صحافت کا تعلق سچی خبروں سے ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی زرد صحافت بھی ہے، لیکن صحافیوں کو صحافت میں اپنا رول ماڈل بنانا ہوگا اور ایسی خبریں چلانی چاہئیں جس میں دوبارہ وضاحت کی ضرورت نہ ہو، اس لیے صحافیوں کو سچی اور تصدیق شدہ رپورٹنگ کو ترجیح دینی ہوگی کیونکہ پریس کلب معاشرے پر بہت زیادہ اثر ڈالتے ہیں، لاڑکانہ پریس کلب کے صدر ظفر ابڑو نے کہا کہ میڈیا میں خبروں کی دوڑ کے نتیجے میں اخلاقیات اور انسانی اقدار کو فراموش کر کے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس طرح کی ورکشاپس ہر شہر میں منعقد کی جانی چاہئیں، جس سے مثبت نتائج برآمد ہوں گے جبکہ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے نمائندوں کو مناسب معلومات اور صحافت کے شعبے کو بہتر بنانا ہوگا، انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر کئی لوگ مقدس کتب لے کر پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہیں لیکن ان کے مسائل حل نہ ہو پا رہے جن مسائل کے حل میں وڈیرے اور افسران رکاوٹ ہیں، انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو مثبت انداز میں استعمال نہ کرنے کی وجہ سے میڈیا میں بگاڑ پیدا ہوتی ہے، جس کے خاتمے کے لیے محکمہ سندھ ہیومن رائٹس ڈپارٹمینٹ سندھ کی جانب سے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں اس طرح کی ورکشاپس کا انعقاد خوش آئند ہے، جس کے مستقبل میں بہتر نتائج برآمد ہوں گے، ورکشاپ میں گفتگو کرتے ہوئے معلومات دیتے ہوئے معروف صحافی قاضی آصف نے کہا کہ صحافی کوریج کے دوران اپنی سیکیورٹی کو یقینی بنائیں اور اپنی شناخت ظاہر کریں، موجودہ دور میں صحافیوں کو تین طرح کی دھمکیاں ہیں، جیسے کہ جسمانی دھمکیاں، جس میں صحافیوں اور ان کے خاندان کے افراد اور دوستوں کو قتل، اغوا، زخمی، جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، دفاتر پر حملے اور تشدد، جھوٹے مقدمے درج کرنا، کیسز، اخبارات کو جلانا، چینلز پر پابندی جبکہ ڈیجیٹل دھمکیوں میں واٹس ایپ پر دھمکی آمیز کالز، ای میلز بھیجنا، موبائلز پر ٹیکسٹ بھیجنا، دھمکی آمیز تبصرے، اکاؤنٹس ہیک کرنا، سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹ بنا کر کردار کشی، مواد کو ہٹانا اور تیسرا پالیسی دھمکیاں شامل ہیں کہ کسی چینل یا اخبار میں خبر چلانے پر پابندی لگانا، خبر چلانے پر رپورٹر کو برطرف کرنا شامل ہے، انہوں نے کہا کہ حال ہی میں سندھ حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے سندھ جرنلسٹس پروٹیکشن کمیشن بنایا ہے، جس میں کسی بھی میڈیا پرسن کو دھمکی دینے پر بروقت ایف آئی آر درج کی جاسکتی ہے، یہ پورے صوبے میں نافذ العمل ہے، ورکشاپ میں سینئر صحافی اور لاڑکانہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری محمد عاشق پٹھان، ڈاکٹر مولابخش کلہوڑو، ڈائریکٹر انفارمیشن لاڑکانہ درشن لال، معظم سلطان بخاری، سید جاوید شاہ، عبدالقادر جاگیرانی، طارق محمود درانی، اکبر آزاد ہسبانی، راشد سموں، ظہیر ابڑو، سید سفیر علی شاہ، یوسف علی شیخ، راجہ گاڈھی، نواز منگی، محمد ادریس بلوچ، ذیشان کوکھر، قاضی فرید، قاضی نیاز، سہیل قاضی، منور بھٹو، خواتین وکلاء سلمیٰ بھٹو، اختر بیگم، مسرت سومرو اور دیگر نے شرکت کی اور انسانی حقوق کا احاطہ کرنے کے حوالے سے مختلف سوالات کئے جس پر سینیئر صحافی قاضی آصف نے پریزنٹیشن کے ذریعے جوابات دیئے۔