اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)حکومتی و عسکری قیادت کا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز کرانے پر اتفاق ہوا ہے ۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ روز اعلیٰ سطحی ہونے والے اجلاس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ دوسرا اجلاس ایک گھنٹہ جاری رہا اور اس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے بھی شرکت کی۔حکام نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں اپنی تحلیل کے 90 روز کے اندر پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کافی پریشان ہیں اور انہوں نے تمام صوبوں اور وفاق میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے تحفظات کے پیش نظر اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ اگر اب پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوتے ہیں تو قومی اسمبلی کے انتخابات پر نئی صوبائی حکومت کا اثر و رسوخ ہوگا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پنجاب میں انتخابات گزشتہ مردم شماری کے تحت ہونے والے تھے جبکہ نئی مردم شماری آئندہ چار ماہ میں مکمل ہو جائے گی اور ملک میں عام انتخابات تازہ مردم شماری کے مطابق کرائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کرےگا۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے ایک حالیہ فیصلے میں پنجاب کی نگراں حکومت کو صوبے میں 30 اپریل کو انتخابات کرانے کی ہدایت کی تھی۔احسن اقبال نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ ’جلد بازی‘ میں لیا ہے کیونکہ موجودہ حالات اتنی جلدی انتخابات کی اجازت نہیں دیتے۔انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری تھی کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ کرے۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ملک کے بہترین مفاد میں ہے کہ تمام صوبوں اور مرکز میں ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں۔انہوں نے بتایا کہ یہ اجلاس میں سب کی مشترکہ رائے تھی، اگر اب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ہوئے تو اس سے مزید مسائل اور تنازعات پیدا ہوں گے۔قمر زمان کائرہ نے کہا کہ تمام متحارب سیاسی قوتوں کو مذاکرات کا آپشن نہیں چھوڑنا چاہیے اور اگر عمران خان نے کوئی اشارہ دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں تو ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تعطل سے نکلنے کا کوئی درمیانی راستہ ہونا چاہیے۔